صحت کو بہتر کرنے کے لیے سال بھر کن چیزوں پر دھیان دینا چاہیے؟

نیا سال شروع ہو چکا ہے اور نئے سال میں کئی لوگ پورے سال کے لیے کئی اہداف مقرر کرتے ہیں۔ نئے سال میں وزن کو کم کرنا ایک عام سا ہدف ہوتا ہے، تاہم سال کے صرف پہلے ہفتے میں سخت ڈائٹنگ اور ورزش کرنے سے صحت پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔  اب وقت ہے نئے سال میں کچھ ایسے اہداف سیٹ کرنے کا جن سے آپ کی صحت پر مجموعی طور پر بہترین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اسی سلسلے میں این ڈی ٹی وی نے کچھ نئے اہداف بتائے ہیں جن پر عمل کر کے صحت مند رہا جا سکتا ہے۔

نیند کو ترجیح دیں
نیند کا معیار اور مقدار دونوں ہماری صحت پر اثرات مرتب کرتے ہیں۔ نیند کی کمی کی وجہ سے دل کی بیماریوں، ڈپریشن اور موٹاپے جیسی کئی بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ لہٰذا اس سال کے آغاز میں نیند کو فوقیت دینے کا عزم کریں اور ایسی حکمت عملی بنائیں جس سے آپ بھرپور نیند کر سکیں۔

بیٹھیں کم، چلیں زیادہ
بیٹھ کر کام کرنے سے سستی پیدا ہوتی ہے۔ بہت دیر بیٹھنے کے باعث صحت پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے کئی بیماریاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ لہٰذا 2024 میں ایسا شیڈول بنائیں جس سے آپ زیادہ دیر چل پھر سکیں۔ ہر ایک گھٹنے بعد پانچ منٹوں کے لیے چہل قدمی کریں۔

 
ہر روز مراقبہ کریں
سنہ 2024 میں آپ کو مراقبہ یعنی میڈیٹیشن کرنے کے فوائد مکمل طور پر معلوم ہونے چاہییں۔ مراقبہ کرنے سے ذہنی صحت بہتر ہوتی ہے، ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے، اپنے بارے میں پتا چلتا ہے جبکہ منفی جذبات کم ہونے کے ساتھ ساتھ بلڈ پریشر میں بھی کمی آتی ہے۔

اپنے آپ پر توجہ دیں
اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ اپنے آپ پر توجہ دینے کا مطلب خود غرض ہونا نہیں ہے۔ مصروف زندگی میں اپنے آپ کے لیے وقت نکالنے سے ذہنی صحت میں بہتری آتی ہے اور جسمانی صحت پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کسی جسمانی سرگرمی کے ذریعے بھی خود پر توجہ دی جا سکتی ہے۔ ضروری نہیں ہے آپ جِم میں گھنٹوں گزاریں بلکہ آپ اپنی پسند کا کوئی بھی کام کر سکتے ہیں جیسے ٹریکنگ وغیرہ۔

ڈائٹنگ چھوڑ کر صحت مند غذائیں کھائیں
آپ سخت ڈائٹنگ بہت جلدی ترک کر سکتے ہیں کیونکہ سخت ڈائٹ عمومی طور پر کم وقت میں جلدی نتیجہ دیتی ہے تاہم بہت سی پابندیوں کے باعث اس سخت ڈائٹ پر عمل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے اس سال آپ گھر سے پکے ہوئے خالص اور صحت مند کھانوں پر توجہ دیں۔ یہ صحت کو مجموعی طور پر بہتر رکھنے کا سادہ لیکن پائیدار طریقہ ہے۔ 2024 میں صحت مند کھانوں کے ساتھ رشتہ قائم کریں تاکہ آپ کا دماغ اور جسم صحت مند رہے۔

بشکریہ اردو نیوز

 

صحت مند رہنے کے رہنما اصول

صحت مند رہنا ایک خواب ہے، جو کہ ہر کسی کی آنکھوں میں سجا رہتا ہے۔ کیوں کہ صحت ایک ایسی نعمت خداوندی ہے جس سے انسان اپنے روزمرہ کے کام بخوبی سر انجام دے سکتا ہے۔ وہ جو ضرب المثل مشہور ہے کہ ’’اندھا کیا چاہے؟ دو آنکھیں‘‘۔ اسی طرح ایک بیمار آدمی بھی صحت کی خواہش رکھتا ہے۔ آج اگر ہم دیکھیں تو ہمارے اسپتال بیمار لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہر دوسرا انسان کسی نہ کسی مرض میں مبتلا نظر آتا ہے۔ مسجدوں میں جائیں تو ہر نماز کے بعد امام صاحب کی آواز گونجتی ہے کہ بیماروں کے لیے دعا کیجئے۔ آخر کیا وجہ ہے اتنی دعاؤں، دواؤں اور سائنس کی ترقی کے باوجود بھی بیماریاں ہیں کہ بڑھتی جارہی ہیں؟ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے، مگر میں آج کچھ ایسے طریقے بیان کرنا چاہ رہا ہوں جن کی مدد سے آپ خود کو صرف چند دنوں میں سست اور بیمار زندگی سے تندرست و توانا زندگی کی طرف لے کر جاسکتے ہیں۔ صحت و تندرستی ایک حساس موضوع ہے اور ہم بحیثیت قوم ایسے ہیں کہ اگر کوئی ڈاکٹر ملے تو سب بیمار بن جاتے ہیں اور اگر کوئی اپنی بیماری بتا بیٹھے تو ہم سب اسی وقت ایک ماہر ڈاکٹر بن جاتے ہیں اور اسے متضاد غذاؤں کے ساتھ دیسی ٹوٹکے بھی عنایت کردینا عین ثواب سمجھتے ہیں۔ چاہے اس کے نتائج کا ہمیں قطعاً علم بھی نہ ہو۔

ماہرین صحت کے مطابق حسب ذیل بنیادی طریقوں سے کافی حد تک صحت مند زندگی کو اپنایا جاسکتا ہے۔ صرف دس دن میں آپ کو اپنی صحت میں بدلاؤ نظر آئے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ صحت اور تندرستی کو تبدیل کرنے کےلیے بہت سارے آسان طریقے ہیں، جو آپ فوری طور پر استعمال کرنا شروع کرسکتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں: 

1۔ کھانا ذائقہ حاصل کرنے یا مزے لینے کےلیے مت کھاؤ، بلکہ اسے بطور رزق کھاؤ۔ یعنی جینے کےلیے کھاؤ نہ کہ کھانے کےلیے جیو۔ جب آپ ذائقہ حاصل کرنے کےلیے کھاتے ہیں تو آپ وہ غذا بھی لے لیتے ہیں جو آپ کی صحت کےلیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ لہٰذا توانائی کےلیے کھانے کی کوشش کیجئے۔
2۔ روزانہ کی بنیاد پر کچھ دیر کی چہل قدمی ضرور کیجئے۔ کیوں کہ پیدل چلنے سے آپ کے جسم میں موجود اضافی کیلوریز جلتی ہیں۔ اور اس پر بھی کوئی پابندی نہیں کہ آپ نے صرف چلنا ہی ہے بلکہ آپ کو اگر چلنا پسند نہیں تو بھی آپ اپنی پسند کا کوئی بھی کھیل کھیل سکتے ہیں، جیسا کہ ٹینس، کرکٹ، باسکٹ بال، ہاکی وغیرہ۔
3۔ شوگر ڈرنکس سے پرہیز کیجئے۔ تازہ پھلوں کا جوس پیجئے اور وہ جوس بھی اپنے گھر میں خود تیار کیجئے۔ بہت زیادہ پانی بھی پیجئے۔

4۔ گوشت کے بجائے سبزی کا زیادہ استعمال کیجئے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ڈاکٹر جب بھی پرہیز بتاتے ہیں تو سبزیوں کے علاوہ ہر چیز کا بتاتے ہیں۔ ہر بیماری کی نوعیت کے اعتبار سے کہ چاول نہیں کھانے یا دودھ نہیں لینا، بڑا گوشت نہیں کھانا، تلی ہوئی کوئی چیز نہیں کھانی یا فلاں پھل نہیں کھانا۔ مگر کسی بھی بیماری میں کوئی بھی سبزی منع نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ وزن کم کرنے کےلیے بھی گوشت چھوڑ کر سبزی کا استعمال بہترین حل ہے۔ آپ کو سبزی خور بننے کی ضرورت نہیں مگر گوشت کے بجائے سبزی کو اہمیت دیجئے۔
5۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں صرف ایک آیت میں صحت مند زندگی کا ایسا رہنما اصول بتا دیا ہے کہ اس پر عمل ہمیں بہت سی پیچیدگیوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
یا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴿الاعراف: 31﴾
’’اے بنی آدم، ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

پانچ وقت کی نماز، مسواک کرنا، وضو کے لیے اپنے اعضا کا پانی سے دھونا، اپنے آپ کو صاف رکھنا، خوشبو لگانا، اپنے معدے کے تین حصے کر کے ایک حصہ کھانا، ایک حصہ پانی پینا اور ایک حصہ خالی رکھنا عین صحت مند زندگی کے ایسے رہنما اصول ہیں کہ اگر صرف ان کو ہی اپنا لیا جائے تو آپ ایک تندرست زندگی گزار سکتے ہیں۔ 

بشکریہ ایکسپریس نیوز

جسم میں کولیسٹرول کی سطح کو کم کیسے کریں ؟

خراب کولیسٹرول (ایچ ڈی ایل) کی سطح ہر عمر کے گروپوں میں عام ہو گئی ہے۔ جب ہمارے جسم میں کولیسٹرول کی سطح بڑھ جاتی ہے تو یہ صحت کی مختلف پیچیدگیوں کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ اضافی کولیسٹرول ہماری شریانوں میں جمع ہو سکتا ہے اور خون کی نالیوں کو تنگ کر سکتا ہے۔ یہ تنگی خون کے بہاؤ کو محدود کرتی ہے جس کے نتیجے میں دل کی بیماری، دل کے دورے اور فالج کا خطرہ کافی بڑھ جاتا ہے صحت مند سطح کے اندر کولیسٹرول کی سطح کو برقرار رکھنا اور ان کو منظم کرنا بہت ضروری ہے۔ ماہر غذائیت لونیت بترا نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ میں اپنی ایک حالیہ پوسٹ میں کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے کے بارے میں عملی مشورے پیش کیے ہیں جس میں تمباکو نوشی چھوڑنا، صحت مند چکنائی کا استعمال اور باقاعدگی سے ورزش کرنا شامل ہے۔ یہ سب کولیسٹرول کی سطح کو مؤثر طریقے سے منظم کرنے اور کم کرنے میں معاون ہیں۔

کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے کے لیے ماہرین کی جانب سے آسان تجاویز
1) صحت بخش چکنائی کا انتخاب کریں
2) اپنی خوراک میں فائبر کی مقدار کو فروغ دیں
3) اپنی خوراک میں اومیگا تھری سے بھرپور غذائیں شامل کریں
4) باقاعدگی سے ورزش کے ساتھ متحرک رہیں
5) اپنے وزن کا صحت بخش انتظام کریں
6) تمباکو نوشی بالکل ترک کردیں

بشکریہ ایکسپریس نیوز
 

طویل اور صحتمند زندگی کا راز

جاپانی قوم دنیا میں سب زیادہ طویل العمر قوم شمار کی جاتی ہے۔ جاپان ٹیکنالوجی کی دوڑ میں بھی آگے رہتا ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ یہ کھیلوں کے عالمی مقابلوں میں بھی سرفہرست رہتا ہے۔ حالیہ ٹوکیو اولمپکس میں یہ تیسرے نمبر پر آیا ہے۔ جاپان میں خواتین کی اوسط عمر 87 برس جبکہ مردوں کی عمر 82 برس ہے۔ گزشتہ برس جاپان میں 90 سال کی عمر کو پہنچنے والے افراد کی تعداد 23 لاکھ سے زیادہ تھی۔ صحت‘ کامیابیوں اور طویل العمری کے کئی راز ہیں مثلاً جاپانی لوگ خوراک کے معاملے میں بہت محتاط ہیں۔ وہ زبان کے ذائقے کے بجائے کھانے میں شامل اجزا کے فوائد کو اہمیت دیتے ہیں۔ خوراک کو متوازن رکھتے ہیں۔ مچھلی‘ اُبلے چاول‘ سبزیوں اور سی فوڈ کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ وٹامنز اور منرلز سے بھرپور ایسی خوراک کو اپنے کھانوں کا باقاعدہ حصہ بناتے ہیں جو کینسر اور دل کے عارضوں سے محفوظ رکھتی ہوں۔ اچھی خوراک کی وجہ سے جاپانیوں میں موٹاپا نہ ہونے کے برابر ہے۔ جاپان کی صرف 4 فیصد آبادی موٹاپے کا شکار ہے جبکہ اس کے مقابلے میں 28 فیصد برطانوی اور 36 فیصد امریکی شہری موٹاپے کے مرض میں مبتلا ہیں۔ 

موٹاپا کئی عوارض لے کر آتا ہے جن میں بلڈ پریشر‘ ذیابیطس اور دل کی بیماریاں شامل ہیں۔ جاپان میں غذائی پروگرام سکولوں کی سطح پر ہی شروع ہو جاتے ہیں۔ سکولوں کو گائیڈ لائنز دی جاتی ہیں اور بچوں کو آغاز سے ہی صحت بخش خوراک کھانے کی عادت ڈالی جاتی ہے جو ساری عمر ان کا ساتھ دیتی ہے۔ سکولوں میں بچوں کو وافر پھل اور سبزیاں کھلائی جاتی ہیں تاکہ ان کا معدہ بوجھل نہ ہو اور وہ کام کے وقت سستی اور کاہلی کا شکار نہ ہوں۔ دوسری احتیاط جو جاپانی کرتے ہیں‘ وہ کھانا دھیان سے کھانا ہے۔ بجائے اس کے کہ کھانا کھاتے وقت کوئی فلم لگا لی جائے یا ٹی وی یا موبائل فون پر وڈیوز دیکھی جائیں‘ جاپانی کھانا انتہائی توجہ اور انہماک سے کھاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں اگر آپ خوراک کو توجہ سے کھائیں گے تو وہ آپ کے جسم کا حصہ بنے گی اورآپ ضرورت کے مطابق کھائیں گے لیکن اگر آپ ٹی وی دیکھتے ہوئے یا گپیں مارتے ہوئے کھاتے جائیں گے تو ضرورت سے بہت زیادہ کھا لیں گے جس سے موٹاپا اور دیگر بیماریاں آپ کو آسانی سے دبوچ لیں گی۔ 

جاپان میں یہ گائیڈ لائنز بہت عام ہے کہ آپ کھانا کھاتے ہوئے اس وقت ہاتھ روک دیں جب آپ کا پیٹ 80 فیصد بھر چکا ہو۔ ویسے یہی باتیں ہمارا دین بھی ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم بھوک رکھ کر کھائیں لیکن ہم کم ہی عمل کرتے ہیں۔ پھر جاپانی لوگ تھوڑا اور آہستہ رفتار سے کھانا پسند کرتے ہیں اس سے کھانا جلدی ہضم ہو جاتا ہے۔ وہ کھانے کو چھوٹے حصوں میں بانٹ لیتے ہیں۔ ہر پلیٹ کے صرف چوتھائی حصے کو بھرتے ہیں اس طرح وہ ضرورت سے زیادہ نہیں کھاتے۔ جاپانی صدیوں سے سبز چائے کے دلدادہ ہیں جو ہاضمے کے لیے ٹانک کا کام کرتی ہے اور جسم کو تازہ دم اور دماغ کو متحرک رکھتی ہے۔ سبز چائے بھی جوان اور دیر تک زندہ رکھنے میں مدد کرتی ہے۔ سبز چائے بالعموم دن میں کئی مرتبہ پی جاتی ہے اور کولڈ ڈرنکس کی جگہ پارٹیوں میں یہی پسند کی جاتی ہے۔ تیسرا اہم فیکٹر جو جاپانیوں کی صحت اور لمبی عمر کیلئے معروف ہے وہ متحرک یعنی ایکٹو لائف سٹائل ہے۔ 

98 فیصد کے قریب جاپانی پیدل یا سائیکل پر سکول جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ سائیکل پر ٹرین یا بس سٹیشن تک جاتے ہیں اور وہاں سے ٹرین یا بس پکڑتے ہیں۔ واپسی پر پھر سائیکل لے کر گھر آتے ہیں۔ جاپانی زمین پر بیٹھ کر کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح ان کی ٹانگوں کے مسلز (پٹھے) لچکدار اور مضبوط رہتے ہیں۔ جاپان میں دنیا کا بہترین ہیلتھ کیئر سسٹم موجود ہے۔ اوسطاً ایک جاپانی شہری ایک سال میں تیرہ مرتبہ ڈاکٹر کے پاس چیک اَپ کیلئے جاتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ سال میں تیرہ مرتبہ بیمار ہوتا ہے بلکہ اس لیے کہ اگر کوئی بیماری شروع ہو رہی ہے تو اسے آغاز میں ہی پکڑ لیا جائے۔ جاپان کے بیشتر گھروں میں کچن گارڈننگ کی سہولت موجود ہے۔ اگر گھر چھوٹا ہے تو بھی کچن کی کھڑکی میں بیل دار سبزیاں ضرور دکھائی دیں گی۔ اس کے علاوہ گھروں میں مچھلیاں تک پالی جاتی ہیں۔ تالاب کی جگہ نہیں ہے تو بھی یہ لوگ کشتی کے نچلے حصے کو تالاب کی جگہ دے کر مچھلیاں پال لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ روزانہ کی بنیاد پر سو گرام تک مچھلی کھاتے ہیں۔ 

ماہرین کے مطابق جاپان میں دل کے امراض کے کم ہونے کے پیچھے بڑی وجہ مچھلی کا استعمال ہے۔ جاپانی لوگوں کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ چلتے نہیں بلکہ بھاگتے ہیں۔ سائیکل ان کی من پسند سواری ہے ہر دوسرا بندہ سائیکلنگ کرتا نظر آتا ہے۔ فٹ پاتھ ان کے ٹریک ہیں‘ جہاں یہ جب چاہیں بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ ان کی فٹنس کا راز ان کی بھاگ دوڑ اور متحرک زندگی میں چھپا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک جاپانی دن میں اوسطاً چھ ہزار قدم چلتا ہے۔ ہر جاپانی ہفتے میں تین دن آدھے گھنٹے کی واک ضرور کرتا ہے۔ جاپانی صفائی کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ وہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے اپنے جوتے اتار دیتے ہیں۔ اس طرح وہ باہر کی گندگی کو گھر میں داخل نہیں ہونے دیتے اور جراثیموں اور صفائی پر بہت زیادہ وقت اور انرجی خرچ کرنے سے محفوظ رہتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی صفائی ستھرائی کا اعلیٰ معیار برقرار رکھا جاتا ہے مثال کے طور پر نشستوں کی صفائی کیلئے ایک خاص برش میں نمی کا سینسر موجود ہوتا ہے کہ اگر نشست گیلی ہو تو الارم بج اٹھے گا۔ 

جاپانی افراد نجی اداروں میں نوکریوں کیلئے ریٹائرمنٹ سے دو تین برس قبل ہی اپلائی کرنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ جیسے ہی وہ ریٹائر ہوں انہیں دوسری نوکری ڈھونڈنے میں وقت نہ ضائع کرنا پڑے۔ یہ جس دن ریٹائر ہوتے ہیں اس سے اگلے دن دوسری نوکری پر پہنچ جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں اگر وہ ایک دن بھی گھر بیٹھ گئے تو وہ ڈپریشن سمیت کئی عوارض کا شکار ہو جائیں گے کیونکہ ان کے سامنے تیس چالیس برس کی پہاڑ سی زندگی پڑی ہوتی ہے جو گھر میں رہ کر گزارنا ممکن نہیں۔ وہ خود کو متحرک رکھ کر ہی بقایا زندگی صحت مند انداز میں گزار پاتے ہیں۔ یہ طرزِ زندگی بوڑھے لوگوں کو بیماریوں سے بچانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح جاپان میں ریڈیو پر نشر ہونے والی مشقیں وسیع پیمانے پر ہوتی ہیں۔ جمناسٹکس وہاں عام ہے۔ ریڈیو مشقوں کی ایک لمبی تاریخ ہے اور بیشتر جاپانی بچے سکول میں ہر روز یہ مشقیں کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ چونکہ مقامی سطح پر اکثر کھیلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے اس لئے دماغی اور جسمانی صلاحیتوں میں نکھار برقرار رہتا ہے۔

جاپانیوں کی طویل العمری جاننے کیلئے بہت سی دنیا کوشش میں رہتی ہے۔ ایک جاپانی محقق نے بیس سالہ تحقیق کے بعد آخرکار جاپانیوں کی طویل عمر کا راز معلوم کر لیا۔ محقق کا کہنا تھا کہ جاپانی عموماً گرم پانی سے لمبا غسل کرتے ہیں۔ ٹوکیو سٹی یونیورسٹی کے پروفیسر اور میڈیکل ڈاکٹر شینیا ہایا ساکا نے دو دہائیوں تک لمبے غسل اور چشموں سے نکلنے والے گرم پانی میں دیر تک نہانے کے طبی فوائد کا مطالعہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ جاپان میں لوگوں کی لمبی اور صحت مند زندگی کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہے کہ 80 فیصد جاپانی دیر تک گرم پانی میں لیٹے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بیس برس قبل ایک نرس نے ان سے بلڈ پریشر کے مریضوں کو گرم پانی سے غسل دینے سے متعلق استفسار کیا تھا، لیکن اس سلسلے میں کوئی سائنسی تحقیق موجود نہیں تھی، چنانچہ انہوں نے اس سلسلے میں باقاعدہ تحقیق کا آغاز کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ گرم پانی سے زیادہ دیر تک غسل کے تین بنیادی فائدے ہیں؛ حدت‘ پانی پر جسم کے تیرنے کی صلاحیت میں اضافہ اور ہائیڈرو اسٹیٹک پریشر۔ 

ان کے مطابق حفظانِ صحت اور صفائی والے فائدے شاور کے نیچے کھڑے ہو کر غسل لینے سے حاصل تو کیے جا سکتے ہیں؛ تاہم طویل العمری کے فائدے صرف گرم پانی میں لیٹنے سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔ جاپان میں گرم پانی کے ستائیس ہزار چشمے ہیں۔ پاکستان میں بھی جو لوگ نوے یا سو برس کی زندگی تک پہنچے ہیں انہوں نے بھی تقریباً انہی اصولوں کو اختیار کیا جن پر جاپانی عمل کرتے ہیں؛ چنانچہ سادہ خوراک‘ اچھی نیند‘ باقاعدہ ورزش‘ بازاری کھانوں سے دوری‘ کتب بینی‘ لالچ سے پرہیز اور قدرت سے قربت اختیار کی جائے تو ہر انسان طویل اور صحت مند زندگی گزار سکتا ہے۔

عمار چودھری

بشکریہ دنیا نیوز

میں نے شوگر کیسے کنٹرول کی

مجھے شوگر کا مرض پہلے لاحق ہوا تھا یا صحافت کا عارضہ‘ میں آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکا تاہم یہ طے ہے یہ دونوں امراض لاعلاج ہیں۔ انسان جس طرح ایک بار صحافی بننے کے بعد تاحیات صحافی ہی رہتا ہے خواہ وہ کتنا ہی سمجھ دار اور تجربہ کار کیوں نہ ہو جائے بالکل اسی طرح آپ اگر ایک بار شوگر کے مریض بن گئے تو پھر آپ قبر تک اس سے جان نہیں چھڑا سکتے۔  میں بھی یہ سمجھتا تھا مگر میں آج شوگر کے عالمی دن پر یہ جسارت کر رہا ہوں میں نے اس مرض کو کم از کم 80 فیصد کنٹرول کر لیا ہے‘ گومیرے دوست گرو زاہد عرفان اور ڈاکٹر خالد جمیل دعویٰ کر رہے ہیں میں سو فیصد ’’نان ڈائیابیٹک‘‘ ہو چکا ہوں مگر میں خوف یا شوگر سے محبت کی وجہ سے اپنے آپ کو 20 فیصد کا مارجن دے رہا ہوں۔ میری رپورٹس ماشاء اللہ سو فیصد ٹھیک ہیں‘ شوگر کا تین مہینے کا ٹیسٹ ایچ بی اے ون سی ایک سال سے پانچ اعشاریہ سات ہے‘ خون کے باقی تمام ٹیسٹ بھی شان دار ہیں اور میں اس وقت عملاً ’’زیرو میڈی سن‘‘ ہوں اور میں اللہ کے لاکھ لاکھ کرم سے کسی قسم کی کوئی دوا استعمال نہیں کر رہا اور چون سال کی عمر میں 25 سال کی عمر سے بہتر زندگی گزار رہا ہوں۔

سوال یہ ہے میں اس لیول پر کیسے آیا؟ یہ ایک طویل داستان ہے اور میں یہ داستان آپ کو اس نیت سے سنا رہا ہوں شاید آپ میری طرح اس مرض کو شکست دے لیں‘ آپ بھی شاید اللہ کے کرم سے ایک صحت مند زندگی گزار سکیں۔ میں اپنی داستان 1993 سے اسٹارٹ کرتا ہوں‘میں شوگر کا مریض ہوں‘ مجھے یہ اطلاع 1993 میں ملی تھی‘ میں اس وقت 25 سال کا نوجوان تھا اور مجھے عین جوانی میں یہ مرض لاحق ہو گیا‘ میں کیوں کہ فطرتاً ضدی انسان ہوں‘ کام یابی یا موت میرے سامنے بس دو ہی آپشن ہوتے ہیں چناں چہ میں نے شوگر کے خلاف جہاد شروع کر دیا۔ میں نے بھی دنیا کے 90 فیصد مریضوں کی طرح شروع میں ادویات لیں لیکن مرض کنٹرول نہ ہو سکا چناں چہ انسولین شروع کر دی‘ 20 سال انسولین لگاتا رہا اور انسولین‘ فوڈ مینجمنٹ‘ ایکسرسائز اور پازیٹو تھنکنگ سے جیسے تیسے شوگر کے برے اثرات سے بچتا رہا لیکن پھر اس مرض کے اثرات نظر آنے لگے‘ زیادہ اور طویل واک کی وجہ سے گھٹنوں میں درد ہو گیا اور چلنے پھرنے میں دقت ہونے لگی‘ ٹانگوں اور پائوں کو خون سپلائی کرنے والی وینز بھی دب گئیں چناں چہ میں پتلون نہیں پہن سکتا تھا۔

میرے پاس کھلے ٹرائوزر اور شلوار قمیض کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا‘ میری دونوں آنکھوں کا ریٹنا بھی متاثر ہونے لگا‘ مجھے دھندلا نظر آتا تھا‘ میرے چہرے کی سکن بھی بری طرح تباہ ہو گئی اور میں اچھا خاصا ’’فٹے منہ‘‘ ہو گیا‘ میں اب گھٹنوں اور کولیسٹرول کی ادویات کھانے پر بھی مجبور ہو گیا اور مجھے آنکھوں میں انجیکشن بھی لگوانا پڑ گئے اور میری واک بھی بند ہو گئی‘ میرے پاس صرف دو آپشن تھے‘ میں مرض کے ہاتھوں میں سرینڈر کر دیتا یا پھر میں نئے سرے سے اس کے ساتھ جنگ شروع کر دیتا۔ میں کیوں کہ فطرتاً ڈھیٹ اور ضدی ہوں لہٰذا میں نے نئے سرے سے جنگ کا فیصلہ کر لیا‘ میں نے شوگر کو دوبارہ پڑھنا شروع کیا تو پتا چلا امریکا اور یورپ میں انقلاب آ چکا ہے‘ ہزاروں لوگ شوگر سے مستقل جان چھڑا کر اب ایک صحت مند زندگی گزار رہے ہیں‘ مجھے پتا چلا ڈاکٹر جیسن فنگ‘ ڈاکٹر ولیم ڈیوس اور ڈاکٹر ایرک برگ نام کے ڈاکٹر ہزاروں لوگوں کی زندگی بدل چکے ہیں‘ کیٹو ڈائٹ‘ لوکارب اور انسولین ریزسٹینس کے نام سے نئی تھیوریاں آ چکی ہیں‘ بھارت میں بھی درجنوں ویل نیس سینٹر لوگوں کو ٹریننگ دے کر انھیں ’’شوگر فری‘‘ بنا رہے ہیں۔

میں پڑھتا گیا اور میری آنکھیں کھلتی چلی گئیں‘ پاکستان میں ڈاکٹر خالد جمیل نے اس پر کام کیا تھا‘ یہ گردوں کے سرجن ہیں‘ یہ خود بھی شوگر کے مریض تھے‘ ڈاکٹرز نے انھیں بھی جواب دے دیا تھا لہٰذا یہ بھی لوکارب اور کیٹو ڈائیٹ پر شفٹ ہوئے اور شوگر کے عذاب سے باہر آ گئے‘ ڈاکٹر صاحب نے اب اپنے آپ کو دوسروں کی رہنمائی کے لیے وقف کر دیا ہے‘ میرا ان سے رابطہ ہو گیا‘ اس دوران زاہد عرفان سے بھی ملاقات ہوئی‘ یہ بھی خوف ناک شوگر کے بعد شوگر فری زندگی گزار رہے تھے‘ میں نے انھیں گرو کا خطاب دیا اور پھر ان دونوں کی مدد سے کام شروع کر دیا۔ شوگر ری ورسل کا فارمولا بہت آسان ہے‘ ہم لوگ اناج زیادہ کھاتے ہیں‘ ہماری خوراک روٹی‘ چاول‘ دالوں‘ چینی اور کوکنگ آئل پر مشتمل ہے اوریہ پانچوں چیزیں شوگر‘ بلڈ پریشر‘ یورک ایسڈ‘ جوڑوں کا درد اور موٹاپا پیدا کرتی ہیں اورآپ اگر ان کے ساتھ سگریٹ نوشی بھی کرتے ہیں یا شراب پیتے ہیں تو پھر آپ کے بچنے کے چانسز نہ ہونے کے برابر ہو جاتے ہیں‘ میں اللہ کے رحم سے شراب اور سگریٹ سے پوری زندگی محفوظ رہا لہٰذا میرا ایشو صرف خوراک تھی۔

میں نے روٹی‘ چاول‘ چینی‘ دالیں اور کوکنگ آئل چھوڑ دیا اور خود کو سبزیوں‘ گوشت‘ مچھلی‘ انڈوں‘ دیسی گھی اور تازہ پھلوں پر شفٹ کر دیا‘ میرا جسم اس تبدیلی کے لیے تیار نہیں تھا لہٰذا میرا وزن تیزی سے گرنے لگا‘ میرا وزن دو ماہ میں 13 کلو کم ہو گیا اور میں دیکھنے والوں کو بیمار دکھائی دینے لگا‘ میں خود بھی گھبرا گیا لیکن جب ٹیسٹ کرائے تو وہ تمام شان دار تھے چناں چہ میرے پاس اس کے بعد دو آپشن تھے‘ میں صحت مند دکھائی دوں یا پھر صحت مند ہو جائوں۔ میں نے دوسرا آپشن لے لیا اور کسی تنقید کی پروا نہیں کی اور یوں میں چھ ماہ میں نان ڈائیا بیٹک بھی ہو گیا اور میرے گھٹنوں کا درد بھی ختم ہو گیا‘ آنکھیں بھی ٹھیک ہو گئیں اور میں بیس سال چھوٹا بھی دکھائی دینے لگا‘ میں آج نہ ہونے کے برابر انسولین لگاتا ہوں‘ یہ نہ بھی لگائوں تو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن کیوں کہ 22 سال سے انسولین لگا رہا ہوں اور میری باڈی کو اس کی عادت پڑ چکی ہے لہٰذا میں تھوڑے سے یونٹس لگا کر خود کو مطمئن کر لیتا ہوں‘ ایکسرسائز کرتا ہوں‘ کم کھاتا ہوں‘ نیند پوری لیتا ہوں‘ خوش رہنے کی کوشش کرتا ہوں اور اللہ کی نعمتیں گن گن کر اس کا شکر ادا کرتا ہوں۔

گرو زاہد عرفان ایک پرائیویٹ فرم میں کام کرتا تھا‘ میں نے اس کی منت کر کے اس سے نوکری چھڑا دی اور یہ اب ’’مائینڈ چینجر‘‘ کے ساتھ مل کر لوگوں کو ٹریننگ دے رہا ہے‘ ہمارا پیغام بڑا سادہ ہے‘ دنیا کی ہر بیماری کچن سے اسٹارٹ ہوتی ہے اور یہ کچن ہی سے ٹھیک ہو سکتی ہے‘ آپ کا اگر وزن زیادہ ہے یا آپ بلڈ پریشر‘ شوگر‘ گردوں اور دل کے امراض کے شکار ہیں تو آپ بس خود سے یہ سوال پوچھ لیں ’’آپ بیمار کیسے ہوئے؟‘‘ آپ چند لمحوں میں بیماری کی جڑ تک پہنچ جائیں گے‘ یقین کریں 90 فیصد امراض کچن سے اسٹارٹ ہوتے ہیں اوریہ کچن ہی سے ختم ہوتے ہیں لہٰذا آپ کو میدانوں اور پارکوں میں پاگلوں کی طرح دوڑنے کی ہرگز ضرورت نہیں‘ آپ بس خوراک کنٹرول کر لیں‘ آپ کی تمام بیماریاں کنٹرول ہو جائیں گی‘ انسان کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں‘ یہ خوراک اور ایکسرسائز سے بیماریوں کو کنٹرول کر لے یا پھر یہ ادویات کھاتا رہے۔ پہلے آپشن میں آپ کی کوالٹی آف لائف بہتر ہو جاتی ہے جب کہ دوسرے آپشن میں آپ کی ادویات بھی بڑھتی رہتی ہیں اور آپ کی کوالٹی آف لائف بھی دن بدن گرتی چلی جاتی ہے‘ آپ آج سے ستر اسی سال پیچھے چلے جائیں‘ آپ کو لوگ سادہ کھانا کھاتے اور کھیتوں میں کام کرتے نظر آئیں گے‘ اس زمانے میں پورے شہر میں ایک آدھ ڈاکٹر ہوتا تھا لیکن آج ہرگلی میں دس دس ڈاکٹرز ہیں اور ہم میں ہر شخص شام کو کیمسٹ سے دوائیں خرید کر گھر آتا ہے‘ کیوں؟

آپ نے کبھی سوچا؟ میرے والد نے ایک دوائی شروع کی تھی اور وہ انتقال سے قبل 16 دوائیں کھا رہے تھے اور ان کی صحت بھی بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی تھی لہٰذا آپ کے پاس ایک ہی آپشن بچتا ہے آپ دوائیں کھائیں یا پھر خوراک کو دوا بنا لیں‘ میرا مشورہ ہے آپ اپنا علاج کچن اور ڈائننگ ٹیبل پر کریں اور اگر اس کے باوجود کوئی کسر رہ جائے تو پھر ایکسرسائز کریں‘ آپ کی زندگی بدل جائے گی اور میں خود اس کی مثال ہوں۔ نوٹ: ہم نے گرو زاہد عرفان کے ساتھ مل کر شوگر سے نجات کا ایک فوڈپلان بنایا ہے‘ آپ +92 334 9534185  پر واٹس ایپ کر کے حسنین پاشا سے اس کی ویڈیو منگوا سکتے ہیں‘ آپ اس پلان پر عمل کریں اور ہمیں دعا دیں‘ اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی زندگی اور صحت دے۔

جاوید چوہدری

بشکریہ ایکسپریس نیوز

تھکاوٹ اسباب اور علاج

”تھکاوٹ کی وجہ سے جسم ٹوٹ رہا ہے، کسی کام میں بھی دل نہیں لگ رہا۔ کوئی تکلیف بھی نہیں ہے۔ پتا نہیں مجھے کیا ہو گیا ہے۔‘‘ یہ وہ جملے ہیں جو ہم اکثر و بیشتر اپنے ساتھیوں، دوستوں، عزیزوں یا گھر والوں سے سنتے رہتے ہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر آپ نے نیند بھی پوری کر لی ہو، محنت مشقت کا کوئی کام بھی نہ کیا ہو اور کوئی بیماری بھی اس کا سبب نہ ہو تو پھر اس تھکن کا سبب کیا ہے؟ تھکاوٹ، جسم کی شکستگی اور سستی کے احساس کا نام ہے جو وقتی بھی ہو سکتا ہے اور ہمہ وقتی بھی۔ ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے کبھی کبھی مقررہ اوقات سے زائد کام نہ کرنا پڑتا ہو، اس لیے نہ صرف آرام کا وقت قربان کرنا پڑتا ہے بلکہ نیند کی بھی قربانی دینا پڑتی ہے۔ وقت گزر جانے اور مناسب نیند کر لینے سے عارضی یا وقتی نوعیت کی تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے لیکن جو تھکاوٹ پیچھا چھوڑنے کا نام ہی نہ لے اور ہر وقت طاری رہے وہ آگے چل کر تشویش ناک شکل اختیار کر سکتی ہے۔ اس طرف سنجیدگی سے مناسب توجہ دینے اور جامع علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔

اسباب
مستقل تھکاوٹ کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ کئی لوگوں کی یہ خصوصیت بن جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مصروف رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وہ بہت سا کام ایک ہی وقت میں نمٹانا چاہتے ہیں۔ جب تک سب کچھ نمٹ نہ جائے انہیں چین ہی نہیں آتا۔ یہ کمال پرستی ہوتی ہے، جو آپ پر ہمیشہ مصروفیت طاری کیے رکھتی ہے۔ جب تک سب کچھ ”مکمل‘‘ نہ ہو جائے یہ لوگ ذہن پر ”بوجھ‘‘ اٹھائے رکھتے ہیں خواہ کتنے ہی تھک چکے ہوں۔ تھکاوٹ کا سب سے بڑا سبب کھانے پینے کی غلط عادات اور اس کی وجہ سے جسم میں کمزوری اور ناتوانی کا پیدا ہو جانا ہے۔ تھکاوٹ اس امر کا اظہار ہوتی ہے کہ خوراک سے جسم کے خلیے مناسب مقدار میں معمول کی توانائی حاصل نہیں کر پا رہے۔ بعض غذائیں مثلاً سفید چینی، صاف کردہ اناج، سفید آٹے کی مصنوعات اور ڈبہ بند غذائیں کھانا لوگوں کی عادت بن چکی ہے۔ اس طرح کی غذائیں جسمانی نظام کو عموماً سست اور کمزور بنا دیتی ہیں۔

غذاؤں کو ان کی فطری خصوصیت سے محروم کرنے سے ان کے اندر موجود بیش بہا وٹامنز اور منرلز بڑی حد تک ضائع ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں تھکاوٹ، موٹاپا، اعصاب کی کمزوری اور متعدد دیگر شکایات پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ آج کل یہ شکایات نہایت عام ہیں۔ بعض جسمانی کیفیات بھی تھکاوٹ کے باعث جنم لیتی ہیں۔ ان میں سے ایک خون کی قلت یعنی ”انیمیا‘‘ ہے۔ یہ لاحق ہو جائے تو جسمانی ٹشوز کو بہت کم آکسیجن پہنچتی ہے۔ چنانچہ انیمیا کے مریضوں کے جسم میں عموماً بہت کم توانائی پیدا ہوتی ہے اور وہ خود کو تھکے تھکے محسوس کرتے ہیں۔ اس صورتحال کے باعث وہ ڈپریشن میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔ انیمیا عام طور پر جسم میں فولاد اور وٹامن بی 12 کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ بعض اوقات اس کے مریضوں کے جسم میں وٹامن بی 6 اور فولک ایسڈ کی بھی کمی واقع ہو جاتی ہے۔

نیند نہ آنا یا کم خوابی بھی تکلیف دہ تھکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔ خواب آور گولیوں اور دیگر ادویات کے ذریعہ لائی گئی نیند، تھکاوٹ کے اسباب دور نہیں کر سکتی۔ پیٹ کے کیڑے بھی تھکاوٹ کی وجہ بن جاتے ہیں کیونکہ وہ خون کے بہترین سرخ ذرات پر پلتے ہیں اور انسانی جسم کو اچھی نشوونما کے ذخیرے سے محروم کر دیتے ہیں۔ تھکاوٹ کی دیگر وجوہات میں کم فشارِ خون، جسم میں کسی انفیکشن کا ہونا، جگر کا عارضہ، تھائی رائیڈ کی ناقص کارکردگی، خوراک کی الرجی، کسی دوا کا سائیڈ ایفیکٹ اور کھانے میں رنگ اور خوشبو کے لیے ملائے جانے والے بعض کیمیکلز کے اثرات بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ ذہنی تناؤ بھی جسمانی تھکاوٹ کے سبب میں سے ہے۔

علاج
تھکاوٹ کے علاج کے لیے غذا کو بہترین اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق بنانا اہم ترین اقدام ہے۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جو لوگ نسبتاً کم غذا کھاتے ہیں یا اعتدال کی حدود میں رہ کر کھاتے ہیں، وہ تھکاوٹ اور اعصابی تناؤ کا کم شکار ہوتے ہیں اور ان کا دماغ تیزی سے کام کرتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بہت زیادہ مگر بے ترتیب کھانے کے بجائے ایسے کھانوں کا انتخاب کریں جو جسم کو قوت دے سکتے ہیں۔ ممتاز مصنف چارلس ڈی مارش اپنی کتاب ”پریسکرپشن فار انرجی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ”قوت کی تخلیق نو کا آغاز اچھی غذاؤں سے ہوتا ہے۔ یہ غذائیں اپنی قدرتی حالت میں ہونی چاہئیں۔ یعنی اناج کے بیجوں، گندم، مکئی، جَو، رائی اور جئی کے بیجوں کی تازہ پسائی کرائی گئی ہو۔ بغیر پکائے گئے اناج توانائی سے بھرپور ہوتے ہیں کیونکہ ان میں تمام وٹامنز اور دیگر توانائی بخش اجزا موجود ہوتے ہیں۔‘‘

مارش نے تازہ سبزیاں استعمال کرنے پر بھی بہت زیادہ زور دیا ہے جو بقول اس کے ”جسمانی قوت کا بھرپور خزانہ ہیں۔‘‘ اگر آپ بھی تھکاوٹ کے مریض ہیں تو پھر اپنی غذا کو متوازن بنائیں اور ان اشیا کی مدد سے اپنے لیے بہترین اشیا کا انتخاب کریں۔ اناج کے دانے، بیج اور بادام، اخروٹ اور مونگ پھلی، سبزیاں اور پھل، دن بھر کے تینوں کھانے، ان میں سے کسی ایک گروپ کی اشیا پر مشتمل ہونے چاہئیں اور ان میں ردوبدل کرتے رہنا چاہیے۔ مریض کو خوراک میں قدرتی غذائیت کی کمی کو پورا کرنے کے لیے قدرتی وٹامنز اور منرلز بھی کھانے چاہئیں، کیونکہ کوئی ایک غذائی جزو بھی کم ہو تو اس سے جسمانی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ پینٹوتھینک ایسڈ (وٹامن بی کا ایک عنصر) کی کمی اس لیے شدید تھکاوٹ کا سبب بنتی ہے کہ اس کمی کا ایڈرینل گلینڈز کی کمی سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔

درحقیقت تمام بی کمپلیکس وٹامنز اعصاب کی حفاظت کرتے ہیں اور گلینڈز کی کارکردگی کو تیز کر کے جسمانی قوت کو بڑھاتے ہیں۔ سبزی خوروں کی غذائیں، سالم اناج، سبز پتوں والی سبزیاں، چاول، دودھ، بادام، اخروٹ، مونگ پھلی، کیلا، دال، مٹر وغیرہ ہونی چاہئیں کیونکہ یہ وٹامن بی کا بھرپور خزانہ ہوتے ہیں۔ منرلز بھی تھکاوٹ پر قابو پانے میں بڑی مدد دیتے ہیں۔ پوٹاشیم اس کے لیے خاص طور پر مفید ہے۔ پوٹاشیم، کچی سبز پتوں والی سبزیوں میں کافی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ کچی سبزیوں اور پھلوں خصوصاً گاجر کا جوس، خواہ تنہا پیا جائے یا چقندر اور کھیرے کے جوس کے ساتھ شامل کر کے پیا جائے، تھکن پر قابو پانے کے لیے بہت مفید پایا گیا ہے۔ تھکاوٹ کے مریض کو ان غذاؤں کے ساتھ ساتھ بھرپور نیند بھی لینی چاہیے۔ تھکاوٹ سے نجات پانے کے لیے مسکن ادویات، چائے، کافی، سگریٹ وغیرہ کا بھی سہارا نہیں لینا چاہیے، کیونکہ یہ دوائیں اور اشیا عارضی طور پر مستعدی پیدا کرنے کے بعد انسان کو دوبارہ اعصاب شکن تھکاوٹ میں مبتلا کر دیتی ہیں، جس کی دقت پہلے سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

مشکورالرحمن

پریشانی یا گھبراہٹ سے بچانے والی غذائیں

ہم جو کچھ کھاتے ہیں اس کا ہمارے جسم پرہی نہیں بلکہ نفسیات پر بھی اثر ہوتاہے۔ بعض اوقات ٹھنڈے میٹھے آم کھا کر آپ کا موڈ اچھا ہو جاتا ہے اور کبھی انگور آپ کی طبیعت ہشاش بشاش کر دیتے ہیں۔ اگر آپ کو ذہنی پریشانی یعنی انزائٹی ہے تو اس کے لیے چند غذائیں ہیں، جو اس کو دور کرنے میں مدد کرتی ہیں لیکن پہلے ہم انزائٹی کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ انزائٹی کو غیر یقینی کیفیت یا کچھ ناخوشگوار واقع ہونے کا ڈر کہا جا سکتا ہے۔ اردو میں انزائٹی کے لیے بے چینی، پریشانی یا گھبراہٹ جیسی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ ہم سب مختلف وقتوں میں بے چینی کے تجربے سے گزرتے ہیں، جس سے ہمارا دماغ ہمیں خطرات یا مشکل حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرتا ہے مگر بعض اوقات بے چینی نہایت شدید یا حد سے زیادہ ہو سکتی ہے، جس سے ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ 

انزائٹی ایک نفسیاتی اور ذہنی کیفیت کا نام ہے، جس سے بڑی عمر کے افراد کے علاوہ نوجوان بھی متاثر ہیں۔ دنیا بھر میں یہ مرض عام ہے۔ ایک نظرئیے کے مطابق یہ ڈیپریشن کی ہی قسم ہے، صرف اس کی چند ایک علامات مختلف ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کیفیت میں مبتلا رہنے میں انسان کے اردگرد کا ماحول اور اس کی اپنی ذہنی صلاحیت کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔ یہ کیفیت عمر کے کسی حصے میں بھی آشکار ہو سکتی ہے یعنی اوائل عمری سے ساٹھ ستر برس کے عرصے میں کسی بھی وقت حملہ آور ہو سکتی ہے۔

ماہرین کے مطابق عموماً وہ بچے، جنہیں گھر میں نارمل ماحول میسر نہ آئے یا وہ کسی بھی خوف میں مبتلا رہے ہوں، ان میں انزائٹی کا مرض زیادہ پایا جاتا ہے۔ اکثر والدین بچوں کو خوفزدہ رکھتے ہیں، جو کہ ایک غلط طرز عمل ہے۔ ایسا کرنے سے بچہ نہ صرف احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے بلکہ یہ خوف تاعمر اس کی شخصیت کو کمزور بنانے کا سبب بنتا ہے اور آہستہ آہستہ یہ خوف شخصیت کا جزو بن جاتا ہے۔ جب بھی اسے زندگی میں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو یہ مرض شدت اختیار کر لیتا ہے۔

انزائٹی کی صورت میں مریض مخمصے کا شکار ہوتا ہے، وہ بے چینی اور گھبراہٹ محسوس کرتا ہے۔ دل کی دھڑکن بہت تیز ہو جاتی ہے اور رنگت بھی پیلی محسوس ہوتی ہے، مریض کو انجانا سا خوف اور خدشات گھیر لیتے ہیں۔ اکثر اوقات انزائٹی کی وجہ سے سر میں بھاری پن محسوس ہوتا ہے، اس کے علاوہ دیگر کیفیات میں ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جانا، متلی کی کیفیت، کندھوں اور پٹھوں میں کھنچاؤ، جلن اور تیزابیت ہونا یا طبیعت میں غصہ اور چڑچڑاپن آجانا شامل ہیں۔
علاوہ ازیں مریض منفی سوچ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اسے اردگرد کا ماحول اور لوگ اجنبی محسوس ہوتے ہیں حتیٰ کہ مریض اپنے ہی گھر سے دور بھاگنے کی کوشش کرتا ہے۔ 

عام شور اسے بُرا لگتا ہے اور وہ خود کو بیکار یا فالتو سمجھنے لگتا ہے۔ اس کا کسی کام میں جی نہیں لگتا، اکثر سوتے میں ڈر جاتا ہے۔ رش والی جگہوں، اندھیرے اور بند کمرے سے خوف محسوس کرتا ہے۔ مریض پر ہوش کی بجائے جوش کی کیفیت نمودار ہو جاتی ہے۔ عموماً ایک حساس شخص کو انٹرویو کے دوران، جہاز میں سفر کرتے ہوئے، کسی انجانی اور بڑی کامیابی پر یا کسی خاص شخصیت سے ملاقات کرنے کی صورت میں انزائٹی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے بچے جن کے والدین میں ناچاقی زیادہ رہتی ہو، تنہا یا اکیلے رہنے والے افراد، ماں باپ کا بیجا لاڈ پیار یا بچے کو مکمل طور پر نظرانداز کرنے، اپنے ہم عمر ساتھیوں سے ملنے جلنے سے روکنا یا لوگوں میں بچوں کو گھلنے ملنے نہ دینے کی صورت میں وہ انزائٹی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ماہرین نےکچھ غذائوں کو تجویز کیاہے، جو انزائٹی دور کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔

انزائٹی سے بچانے والی غذائیں
چاکلیٹ
براؤن چاکلیٹ کی اہم خوبی یہ ہے کہ اس سے بلڈ پریشر نارمل رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ جسم میں موجود ’ پولی فینول ‘ کو بڑھاتی ہے، جو خون میں موجود آکسیجن کی روانی کو بڑھا دیتا ہے۔ چاکلیٹ کھانے سے ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے کیونکہ برائون چاکلیٹ دماغ میں ’ سیروٹونین ‘ پیدا کرتا ہے، جس سے انسان کے اندر تازگی کا ایک احساس پیدا ہوتا ہے اور انسان ذہنی دباؤسے آزاد ہو جاتا ہے۔

ایواکاڈو
ہسٹیریا ، ذہنی دبائو اور بلڈ پریشر جیسے امراض کا شکار لوگوں کو ایواکاڈو کا استعمال یقینی بنانا چاہئے ۔ ایوا کاڈو پوٹاشیم سے بھرپور ہوتا ہے ، بلڈ پریشر کو کنٹرول کرتا ہے اور دوران خون کو مسلسل اعتدال میں رکھتا ہے۔

سبزیاں
ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ کچی سبزیوں اور پھلوں کا باقاعدہ استعمال ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اگرچہ روایتی ماہرین غذائیات روزانہ 5 مرتبہ خاص انداز میں پھل اور سبزیاں کھانے پر زور دیتے ہیں لیکن جب بات ذہنی تناؤ اور ڈپریشن کی ہو تو اس کے شکار افراد اپنی خوراک میں ان کا مزید اضافہ کر سکتے ہیں۔ کچی سبزیاں اور پھل براہ راست انسانی موڈ پر اثرانداز ہوتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ سبزیوں کو پکانے، بھوننے اور گرم کرنے سے ان کے اندر کئی اہم غذائی اجزاء ضائع ہو سکتے ہیں۔

ہلدی
ذہنی تناؤ، اداسی اور ڈپریشن جدید دور کا ایک بڑھتا ہوا عفریت ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ روزانہ 500 ملی گرام سرکومن ( جو دو چمچ ہلدی میں ہوتا ہے) کھانے سے عین وہی اثر ہوتا ہے، جو مشہور دواؤں پروزیک اور فلوکسیٹائن کھانے سے ہوتا ہے۔ اس طرح ہلدی ڈپریشن کا قدرتی اور فطری علاج ہے۔ دماغ کی سوز ش اور الزائمر جیسی بیماریوں کیلئے ہلدی مفید ہے۔ ہلدی دماغ کی مجموعی صحت کا خیال رکھتی ہے اور دماغ میں آکسیجن کی فراہمی میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

سویا بین
کسی بھی طرح کے دماغی امراض کے لیے سویا بین کا استعمال کافی مفید ہوتا ہے۔ یہ دماغی توازن کو بہتراور دماغ کو تیز کرنے کا کام کرتا ہے۔

فاروق احمد انصاری

اچھی صحت کے بنیادی اصول

صحت مند رہنے کے لیے چند عادات اپنانا لازم ہے مکمل صحت چند بنیادی اصولوں کے اپنانے پر منحصر ہے۔ ان میں سب سے اہم صفائی ہے، جسم کی صفائی، کپڑوں کی صفائی اور گھر کی صفائی۔ یہ تمام چیزیں تندرستی کے لیے ضروری ہیں۔

غسل: سب سے پہلے جسمانی صفائی ہی کو لیجئے۔ غسل جسم کی صفائی کا بہترین طریقہ ہے جو ہر موسم میں فائدہ مند ہے۔ گرمیوں کے موسم میں روزانہ غسل ضروری ہے جبکہ موسم سرما میں ہفتہ میں دوبار غسل ضرور کرنا چاہیے۔ جوان اور صحت مند آدمی سرد (تازہ) پانی سے غسل کر سکتے ہیں جبکہ بچوں اور بوڑھوں کو ہلکے گرم پانی سے غسل کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل حالات میں غسل کرنے میں احتیاط کرنی چاہیے۔

 ۔ ورزش کے فوراً بعد یا پھر پہلے غسل نہ کیا جائے۔

 ۔ تھکا دینے والے کام کے فوراً بعد غسل نہ کیا جائے۔

 ۔ نہانے کے فوراً بعد صاف تولیہ سے جسم کو اچھی طرح خشک کرنا چاہیے۔

۴۔ ہلکے گرم پانی سے غسل ہر عمر اور مزاج کے لوگوں کے لیے، ہر موسم میں مفید ہے، کوشش کی جائے کہ نہانے کے دوران جسم مکمل طور پر رگڑا جائے، صابن کے استعمال سے میل کچیل اور غلاظت دور ہوتی ہے۔

منہ: جسمانی صفائی کے ساتھ ساتھ دانتوں کی صفائی بھی بہت ضروری ہے۔ عام طور پر دانتوں کی خرابی سے ہاضمہ خراب ہو جاتا ہے اور مختلف بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ مسواک دانتوں کی صفائی کا اچھا ذریعہ ہے۔ اس سے مسوڑے مضبوط ہوتے ہیں۔ نیم یا ببول (کیکر) کی تازہ شاخوں یا پیلو کی جڑ کی مسواک بنائی جاتی ہے۔ دانتوں کے برش بھی عام ہیں۔ یہ دانتوں کی صفائی کرتے ہیں۔ لیکن سخت برش دانتوں کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ بعض لوگ منجن کا استعمال بغیر برش کے کرتے ہیں لیکن صرف منجن کے استعمال سے مکمل صفائی نہیں ہوتی کیونکہ دانتوں کے درمیان رہ جانے والے ذرات عموماً نہیں نکلتے جن کے لیے برش یا مسواک ضروری ہے۔ زبان کو صبح کے وقت اچھی طرح صاف کر لینا چاہیے۔ ناخن اور بال صاف رکھیں۔ ہرہفتے ناخن کاٹیں۔

لباس: گندے کپڑے صحت کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ ایسے کپڑے جو بدن سے متصل رہتے ہیں مثلاً بنیان وغیرہ، روزانہ تبدیل کرنے اور صابن سے دھونے چاہئیں۔ کپڑے ہر موسم میں زیادہ سے زیادہ تین دن بعد ضرور تبدیل کرنے چاہئیں۔

گھر: اس کے ساتھ ساتھ مکان کی صفائی بھی بہت ضروری ہے۔ موسم کے لحاظ سے کھڑکیاں دروازے اور روشندان کھلے رکھے جائیں تاکہ ہوا اور روشنی آ جا سکے۔ فرش پر روزانہ جھاڑو لگایا جائے تاکہ فرش گندے نہ ہوں۔ گھر کے گندے پانی کے نکاس کا اچھا انتظام کرنا چاہیے۔ غسل خانے اور بیت الخلا کی صفائی کا خیال رکھنا چاہیے۔ عورتوں کے وقت کا ایک بڑا حصہ کھانا پکانے میں صرف ہوتا ہے اور سارے گھر کی خوراک بھی یہیں تیار ہوتی ہے اس لیے باورچی خانے کی صفائی کریں، اور خاص طورپراسے دھوئیں اور گرمی کے نکاس کا۔

غذا: کھانے کے لیے وقت کی پابندی بہت ضروری ہے۔ غذا عمر اور موسم کی مناسبت اوراپنی ضرورت کے مطابق ہونی چاہیے۔ غذا کا صاف اور حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ہونا ضروری ہے۔

حکیم محمد رشید

What we’re eating is killing us

Poor diets are among the top causes of ill health globally, accounting for nearly one in five deaths, according to a study published on Thursday that called on governments and businesses to do more to improve eating habits. Eating unhealthy food, or not having enough food – including children unable to breastfeed – contribute to widespread malnutrition, said researchers behind the latest Global Nutrition Report. The report is an independently produced annual analysis of the state of the world’s nutrition. “Diets are one of the top risk factors of morbidity and mortality in the world – more than air pollution, more than smoking,” said Jessica Fanzo, a professor at Johns Hopkins University and a lead author. “What we’re eating is killing us. So something needs to get us back on track with our food system,” she said on the sidelines of a global food conference in Thailand’s capital, Bangkok.
She said a lack of knowledge and affordability of nutritious food, as well as ineffective supply chains, are among the factors that contribute to poor diets. The researchers analysed 194 countries and found that malnutrition could cost the world $3.5 trillion per year, while overweight and obesity could cost US$500 billion annually. Every country is battling some form of malnutrition – be it children who are anemic or too short for their age, or women who are overweight but undernourished due to unhealthy diets – and adolescence obesity rates are rising, the report said. Most countries are unlikely to meet nine global targets on nutrition that they have signed up to achieve by 2025 including adult obesity and diabetes, anemia and child health. Progress has been “unacceptably slow”, the authors warned.
However, there is now better and more detailed data, which has created an unprecedented opportunity to craft effective responses, according to the report. It cited Amsterdam, which faced a weight crisis among young people and set up programmes in 2012 to prevent and treat obesity, as well as facilitate learning and research on the issue. Initiatives included public drinking fountains, restrictions on food advertising and guidance for healthy snacks in schools. Today, the prevalence of overweight and obesity in Amsterdam is leveling off, the report said.
Reducing food waste could also improve nutrition, said Sir John Beddington, co-chair of the Global Panel on Agriculture and Food Systems for Nutrition, an independent group of experts. “Each year more than half of all the fruits and vegetables produced globally are lost or wasted,” he told the Thomson Reuters Foundation by email. Fanzo noted that nutrition is crucial to building up immunity against disease, as well as mental cognition. “You have to care about what people are eating if you want to build the intellect of your country,” she said.

تیس سال کی عمر کے بعد صحت مند رہنے کے اصول

ہر عمر میں اپنی صحت کا خیال رکھنا انتہائی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ بچہ جس دن ماں کے پیٹ میں کنسیو ہوتا ہے، اس دن سے لے کر آئندہ کے ہزار دن اس بچے کی پوری زندگی کو بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پہلے ہزار دن ایک فرد کی صحت کے لیے سب سے اہم ہوتے ہیں۔ اس دوران اسے بہترین غذا اور صحت کی سہولتیں فراہم کی جانی چاہئیں۔ اس کے بعد اس کی زندگی میں اگلا اہم پڑاؤ 30 سال کی عمر میں پڑتا ہے۔ 30 سال کو ہمارے خطے میں زندگی کا وسط بھی کہا جاتا ہے۔ اس عمرکے بعد انسانی اعضاء کی کارکردگی میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے۔

جوانی میں طاقت اور خوبصورتی عروج پر ہوتی ہے، لہٰذا لوگوں کو اپنی صحت بحال رکھنے میں اتنی محنت نہیں کرنا پڑتی، تاہم 30 سال کی عمر کے بعد، جسمانی خدوخال پر دباؤ محسوس ہونے لگتا ہے۔ 30 سال کی عمر کے بعد مرد و خواتین، دونوں کے ہارمونز میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ انسانی میٹابولزم بھی اس عمر کے بعد سست پڑنے لگتا ہے اور مرد و خواتین کے وزن میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ وہ عمر ہوتی ہے، جہاں آپ کو مختلف بیماریوں سے لڑنے کے لیے پہلے سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ ذیابطیس، ہائی بلڈ پریشر اور دل کے امراض زیادہ آسانی سے حملہ آور ہوتے ہیں۔

اس عمر میں سر اور چہرے کی جِلد پر بھی واضح تبدیلیاں محسوس کی جا سکتی ہیں، جیسے بالوں کا تیزی سے گِرنا، گنج پن، چہرے پر جھُریاں نمودار ہونا وغیرہ۔ ہڈیوں کے بھربھرے پن کا مسئلہ بھی 30 سال کی عمر کے بعد سامنے آسکتا ہے، جس میں اگر احتیاط نہ کی جائے تو 45 سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے یہ مرض پختہ ہو جاتا ہے۔ 30 سال کی عمر کے بعد کے اِن عمومی مسائل کا ذکر کرنے کے بعد ہم آپ کی خدمت میں کچھ ایسے سماجی رویے اور عادات پیش کرنے والے ہیں، جنھیں اپنا کر زندگی کو خوشگوار اور طویل بنایا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق غذا اور ورزش سے ہٹ کر بھی بہت سے ایسے امورہیں، جو زندگی کو صحت بھرا رنگ دے کر طویل زندگی کی ضمانت بن سکتے ہیں۔

ازدواجی زندگی
ماہرین نفسیات کے مطابق رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور طویل عمرکی وجہ بنتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شریک حیات کی مدد سے زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی قوت پیدا ہوتی ہے اور پھر اولاد کی وجہ سے عملی جدوجہد کا ایک جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ امریکی ریاست نارتھ کیرولینا میں ڈیوک یونیورسٹی نے 4,802 افراد کے مطالعے کے بعد انکشاف کیا ہے کہ شادی شدہ افراد میں وقت سے پہلے اموات کی شرح بہت کم ہوتی ہے اور ان میں دل کے دورے اور اسٹروک کے امکانات بھی 20 فیصد تک کم ہو جاتے ہیں۔

ذہنی دباؤ کو دور بھگائیں
سن 2015ء میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان فرانسسکو کے ایک مطالعے سے معلوم ہوا کہ جو خواتین بات بات پر اداسی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوتی ہیں، ان میں کلوتھو ہارمون کی سطح کم ہو جاتی ہے۔ اس ہارمون کی کمی دل اور دماغ پر خراب اثرات مرتب کرتی ہے اور بیماریوں کاعمل تیز ہو جاتا ہے۔ ایسے افراد میں دل کے دورے کا خطرہ 20 فیصد بڑھ جاتا ہے، اس لئے ذہنی تناؤ سے دور رہیں۔

سماجی تعلقات بڑھائیں
برمنگھم یونیورسٹی کے سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دوستوں سے بات کرنے اور محفل میں بیٹھنے سے جسم پر ویسے ہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو درد دور کرنے والی دواؤں سے ہوتے ہیں۔ الگ تھلگ رہنے والے افراد کو بیماریوں کا اتنا ہی خطرہ رہتا ہے، جتنا بہت موٹے افراد کو ہوتا ہے۔

سفید نہیں براؤن
سفید روٹی کے بجائے براؤن روٹی اور سفید چاول کے بجائے براؤن چاول کو اپنی غذا کا حصہ بنائیں۔ یہ قبل ازوقت موت کے خطرات کو 30 فیصد تک کم کرتے ہیں۔ غذا میں ان اشیا کا استعمال امراض قلب، ذیابطیس اور سانس کی بیماریوں سے دور رکھتا ہے۔

جسمانی مشقت
امریکی کالج آف کارڈیالوجی کے مطابق، ہفتے میں 60 سے 144 منٹ تک دوڑنے سے دل اور صحت پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جرنل آف امریکن کالج آف کارڈیالوجی کے مطابق، 12 سال تک 10 ہزار سے زائد افراد کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ جولوگ جتنی دیرتک دوڑے، انہیں اتنا ہی فائدہ ہوا۔ دوڑنے سے بلڈ پریشر قابو میں رہتا ہے اور دل پر اس کے بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

زندگی کو بامقصد بنائیے
ذراسوچئے کہ آپ کی زندگی کا کیا مقصد ہے؟ اگر نہیں ہے تو اس مقصد کو تلاش کیجئے۔ بامقصد زندگی آپ کو جینے کاحوصلہ دیتی ہے۔

موٹاپے کوقریب نہ آنے دیں
موٹاپا کئی بیماریوں کی وجہ بنتا ہے۔ جن افراد کا باڈی ماس انڈیکس 35 یا اس سے زیادہ ہو، ان میں دیگر کے مقابلے میں، قبل از وقت موت کا خدشہ 29 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ موٹاپا، بلڈ پریشر، امراض قلب اور ٹائپ 2 ذیابطیس کی وجہ بنتا ہے۔

نیند کی اہمیت کو پہچانیں
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا،سان تیاگو اور امریکن کینسر سوسائٹی کے مطابق بہتر نیند، طویل عمری کی ضمانت ہے۔ نیند کی کمی جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی تباہی کی وجہ بنتی ہے۔ سات گھنٹے کی اوسط نیند نہایت ضروری ہے۔ اسی طرح آٹھ گھنٹے سے زائد نیند بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک ہفتے کی کم نیند بھی انسانی زندگی، جسم اور دماغ کو شدید متاثر کر سکتی ہے۔

غذامیں مچھلی کااستعمال
مچھلی میں دیگر اہم اجزاء کے ساتھ ساتھ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز بھی موجود ہوتے ہیں اور یہ زندگی کو طویل رکھتے ہیں۔ ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کے استعمال سے قبل از وقت اموات میں 27 فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ مچھلی کھانے سے پورے جسم پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔