زندگی کے 7 اصول

زندگی ایک بار ملتی ہے، اس لیے اس کے اصول ترتیب دے لینے چاہئیں۔ جو لوگ بے ڈھنگی اور بے اصول زندگی گزارتے ہیں ان کی کامیابی کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ آئیے چند اہم اصولوں پر نظر ڈالتے ہیں۔

 ۔ مستقل مزاجی

 زندگی کا جو بھی مقصد ہو اسے حاصل کرنے کے لیے خوب محنت کرنی چاہیے۔ مقصد کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں آ سکتی ہیں۔ راستہ کٹھن اور پُر پیچ ہو سکتا ہے، لیکن ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور کوئی جواز تلاش کر کے محنت کرنا چھوڑ نہیں دینا چاہیے۔ اس یقین کے ساتھ محنت کرنی چاہیے کہ کبھی ایسا وقت ضرور آئے گا جب ’’بریک تھرو‘‘ ہو گا۔

 ۔ جسم اور ذہن کو آرام

 ہر وقت کام کرنا، نیند پوری نہ کرنا اور کام کی تشویش میں مبتلا رہنا درست نہیں۔ اپنی جسمانی اور ذہنی توانائی کو برقرار رکھنے کے لیے آرام کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ یہ کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

 ۔ مثبت سوچ

انسان کا طرز فکر اس کی خوشی اور کامیابی میں اہم ہوتا ہے۔ اسے ہمیشہ مثبت رکھیں۔ اگر کام کرتے تھکاوٹ محسوس ہو رہی ہے تو خود پر تھوڑا کنٹرول کریں، کوئی ایسی چھوٹی سی سرگرمی کریں جس سے چستی ہو اور پھر اپنا کام تندہی سے کرنا شروع کریں۔ اگر حوصلہ پست ہو گیا ہے تو مسکرائیں، اپنی باڈی لینگوئج بہتر بنائیں، کچھ ایسے کہ آپ کے اردگرد موجود لوگ آپ کے بارے میں اچھا محسوس کریں، اپنے آپ کو حوصلہ دیں اور پھر کام میں جت جائیں۔

 ۔ مشکل کو موقع میں بدلیں

 مشکلات زندگی کا حصہ ہیں۔ مثلاً کبھی کبھی کام کا بوجھ بہت بڑھ جاتا ہے۔ لیکن یہی وہ موقع ہوتا ہے جب آپ سیکھتے بھی ہیں کیونکہ کہ آپ کو کم وقت میں زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ اس سے کام کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ آپ کو کوئی ایسا کام دیا جا سکتا ہے جو آپ کو مشکل محسوس ہو، لیکن اسے کرنے ہی سے آپ کی اہمیت بڑھے گی۔

 ۔ شکرگزاری

ہمیں زندگی ویسی نہیں ملتی جیسی ہم جینا چاہتے ہیں۔ اسے اپنی کوشش سے ہم بدل تو سکتے ہیں لیکن ہر شے نہیں بدلی جا سکتی۔ اس لیے جو ہمارے پاس موجود ہے اس پر ہمیں شکر گزار بھی ہونا چاہیے۔ دوسروں کے زیادہ وسائل پر نظر رکھنے سے ہم اپنا سکون برباد کر سکتے ہیں۔

 ۔ اپنا فیصلہ

 مشورے دینے والے بہت مل جاتے ہیں۔ انہیں دھیان سے سننا چاہیے لیکن عمل کرتے وقت فیصلہ اپنی من مرضی سے کرنا چاہیے۔ دوسروں کے کہے میں آنے کی ضرورت نہیں۔ اپنی زندگی کے مالک خود بنیں۔

 ۔ پسندیدہ ملازمت

ملازمت یا کام وہ کریں جو آپ کو پسند ہو۔ اگر فی الوقت یہ ممکن نہ ہو تو آئندہ کے منصوبوں میں اپنی پسند کے کام کو شامل کر لیں۔ آخر کبھی تو موقع ملے گا۔

ترجمہ: رضوان عطا

عمر اور احتیاط

مردوں کو عمر کے لحاظ سے مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیے۔

عمر 25 تا 40 برس

ورزش کے لیے باقاعدہ منصوبہ کریں۔ باقاعدگی کے ساتھ تیراکی کریں یا سائیکل سواری کو اپنے معمولات میں شامل کریں یا ہفتے میں کم از کم تین مرتبہ کوئی فعال گیم کھیلیں۔ سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں۔ اپنی غذا میں وٹامن اے، سی اور ای کا خاص اہتمام کریں۔

عمر 41 تا 55 برس

اپنی جلد کی نگہداشت پر زیادہ وقت صرف کریں۔ باقاعدگی کے ساتھ ورزش کریں۔ کھیل مثلاً ٹینس کھیلیں، چہل قدمی کریں۔ ذہنی ورزش کریں۔ اپنے معدے کا خاص خیال رکھیں۔ اپنی خوراک کا بھی خاص خیال رکھیں۔ مالش یا مساج کا اہتمام کریں۔

عمر 56 تا 70 برس

ریٹائرمنٹ کے بعد کی نئی زندگی زیرغور رکھیں اور سماجی تعلقات کو خطرات سے دوچار کرنے سے پرہیز کریں بلکہ اپنی سماجی تعلقات کا دائرہ کار وسیع کریں اور کسی کورس میں داخلہ لیں اور مطالعہ بھی کریں۔ کسی قسم کی جزوقتی ملازمت اختیار کر لیں یا کوئی مشغلہ اپنا لیں۔ باقاعدگی کے ساتھ سیر کرنے کا پروگرام بنائیں۔ تیراکی کریں یا گھر میں ہی ورزش کیا کریں۔ اپنے معالج سے باقاعدگی کے ساتھ اپنا طبی معائنہ کرواتے رہیں۔ اپنے لیے صحت بخش غذا منتخب کریں۔

عمر71 تا 80 برس

آپ کا طرززندگی صحت مندانہ رہنا چاہیے۔ آپ کو کسی قدر ذہنی ورزشیں کرنی چاہئیں۔

عمر80 برس یا زائد

ایک صحت بخش طرز زندگی اب بھی انتہائی ضروری ہے۔ آپ کو باقاعدہ اور ہلکی پھلکی ورزش کی ضرورت ہو گی۔ اس میں ذہنی ورزشیں بھی شامل ہونی چاہئیں۔ حفظان صحت کے اصولوں کا خاص خیال رکھیں۔ اپنی خوراک کی جانب خصوصی توجہ دیں۔ آپ کی خوراک میں مچھلی یا مرغ کی پروٹین شامل ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ دالیں اور سبزیاں بھی شامل ہونی چاہئیں۔ سفر کریں بلکہ مہماتی سفر کو اپنا مشغلہ بنائیں۔ اپنے آپ سے لطف اندوز ہوں اور صحت کے کسی بھی مسئلے کو نظرانداز ہرگز نہ کریں بلکہ اس کا مناسب علاج کریں۔

ڈاکٹر مارس کیریاز

یہ 8 عادات ترک کر دیں

ہم میں سے اکثر ایک سے زیادہ خراب عادات کا شکار رہتے ہیں۔ ان سے ہر سمجھ دار شخص کو نجات حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بعض خراب عادتیں یہ ہیں۔

 ۔ اکثر لوگ وقفے وقفے سے اپنی انگلیاں چٹخاتے رہتے ہیں۔ یہ عمل بالخصوص کسی محفل میں اچھا تاثر قائم نہیں کرتا۔ طبی اعتبار سے بھی یہ مفید حرکت نہیں۔ ہمارے جوڑوں کے درمیان کچھ فاصلہ ضرور ہوتا ہے جسم میں لیس دار مواد کے علاوہ ہوا بھی ہوتی ہے۔ انگلیاں چٹخانے کے عمل میں جوڑ وہاں سے ہوا کو ہٹا دیتے ہیں۔ اسے جوڑوں اور ہڈیوں پر غیر ضروری دباؤ پڑتا ہے جس کی وجہ سے گٹھیا کی شکایت پیدا ہو سکتی ہے۔ جب بھی انگلیوں میں بے چینی اور دباؤ محسوس ہو، انہیں چٹخانے کے بجائے احتیاط سے کھینچنا چاہیے یا پھر دو تین مرتبہ مٹھیاں خوب کس کر بند کر کے کھول دینے سے یہ عادت چھوٹ جاتی ہے۔ بعض لوگ اپنی گردن گھما کر گردن کے منکے چٹخاتے رہتے ہیں۔ یہ عادت بھی بری ہے۔

 ۔ دانت سے ناخن کاٹنا ایک بڑی خراب عادت ہے۔ یہ ذہنی الجھن کی علامت ہے۔ یہ طبی اعتبار سے مضر صحت ہے، کیوں کہ اس طرح ناخن میں لگے جراثیم منہ کے ذریعے سے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ چونکہ مسلسل ناخن کترے جاتے ہیں، اس لیے انگلیوں کے سرے کھل جاتے ہیں جس سے ناخن کے نیچے نرم گوشت میں انفیکشن کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اس کے عادی افراد ناخن کے بعد اس کے اطراف کی جلد بھی کترنے لگتے ہیں۔ اس عادت سے چھٹکارے کے لیے پختہ عزم کرنے کے بعد انگلیوں پر کوئی شے چڑھائی جا سکتی ہے۔ کچھ دن ناخنوں کو ڈھکا رکھنے سے عادت چھوٹ جاتی ہے۔ جب ناخن بڑھ جائیں، انہیں باقاعدگی سے کاٹتے رہیں۔

 ۔ رات کا کھانا ضرور کھانا چاہیے۔ یہ ضروری نہیں کہ رات کو خوب کھایا جائے۔ کم خوراک بھی کھائی جا سکتی ہے۔ مثلاً دو چار کھجوریں، چھوارے، ایک آدھ توس، ایک گلاس دودھ اور ایک دو کیلے کھائے جا سکتے ہیں۔ نیند کے دوران غذا کے نہ ملنے سے جسم اپنی مرمت اور بحالی ٹھیک طور پر نہیں کر سکتا۔ رات کے کھانے کے فوراً بعد نہیں سونا چاہیے۔

 ۔ رات کے دوران کھانا معدے سے نکل کر آنتوں میں پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح صبح کے وقت معدہ خالی اور چست رہتا ہے۔ اس وقت ناشتا نہ کرنے سے معدے کو ہاضم رطوبتوں سے نقصان پہنچتا ہے۔ صبح مقررہ وقت پر ایسی زود ہضم غذا کھانی چاہیے جو آپ کو دن بھر توانا رکھے۔

 ۔ اکثر لوگ صبح دانت صاف کرتے ہیں جبکہ رات کو سونے سے پہلے بھی ان کی صفائی بہت ضروری ہوتی ہے، کیونکہ ان میں غذا کے پھنسے ہوئے ذرات نیند کے دوران سڑ کر مسوڑوں اور دانتوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ رات کو سونے سے پہلے باقاعدگی سے دانت صاف کرنے کی عادت مسوڑوں اور دانتوں کی سلامتی کی ضمانت ہوتی ہے۔ اسے اپنائیے۔

 ۔ اگر آپ پیٹ کے بل سوتے ہیں تو یہ ایک اچھی عادت نہیں ہے۔ اس سے سینہ اور معدہ دبتے ہیں، جس کی وجہ سے دل اور پھیپھڑوں پر دباؤ پڑتا ہے اور آنکھیں سرخ اور چہرہ متورم ہو سکتا ہے۔ چند روز کوشش کرنے سے اس عادت سے نجات مل سکتی ہے۔

 ۔ کام کی کثرت، نیند اور تھکن سے آنکھوں میں ہلکی خارش ہوتی ہے۔ گرد و غبار اور تیز روشنی سے بھی ان میں چبھن ہوتی ہے، اکثر لوگ فوراً انگلیوں اور ہتھیلیوں سے انہیں خوب ملتے ہیں۔ چوں کہ ہاتھ صاف نہیں ہوتے اس لیے آنکھوں میں جراثیم داخل ہو جاتے ہیں۔ تیز رگڑ کی وجہ سے پلکیں بھی جھڑنے لگتی ہیں اور آنکھوں میں بھی خراشیں آتی ہیں۔ اپنی آنکھیں صاف ستھرے تولیے، رومان یا ٹشو پیپر سے دھیرے دھیرے مَلیے۔ بہتر ہے کہ انہیں صاف ٹھنڈے پانی سے دھو لیا جائے۔

 ۔ آج کل اکثر گھرانوں میں کھانا پکانے کے دوران نمک کم ڈالا جاتا ہے لیکن کچھ لوگ دستر خوان پر کھانے میں نمک ملا کر صحت کی خرابی کا سامان پیدا کرتے ہیں۔ نمک سے بلڈ پریشر میں اضافہ ہوتا ہے۔ مزے اور لذت کے لیے سرکے اور پیاز یا لیموں، ہری مرچ اور پودینے کی بغیر نمک کی چٹنی سے مدد لیجیے۔ زیادہ نمک کی عادت چھوٹ جائے گی۔

سید رشید الدین

صحت مند زندگی کیسے حاصل کریں ؟

ہر انسان صحت مند رہنا چاہتا ہے لیکن اس کے لیے طرز زندگی کا صحت کے اصولوں کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ خوشگوار اور بھر پور زندگی کے لیے ایسا کرنا لازم ہے۔ یوں انسان تروتازہ اور توانا رہتا ہے اور موڈ بحال رہتا ہے۔ صحت مند طرز زندگی کے اصولوں کو اپنا کر بہت سی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں بھر پور اور مکمل نیند انتہائی اہم ہے۔ اس کے بہت سے فوائد ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ جسم کو متناسب رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ سات سے آٹھ گھنٹے کی نیند شوگر اور شریانوں کے سکڑنے کی بیماری کے امکانات کو کم کرتی ہے۔

نیند کا پورا نہ ہونا چڑچڑاپن، تھکاوٹ اور طبیعت کی خرابی کا باعث بنتا ہے۔ نیند کی کمی موٹاپے اور بھوک بڑھانے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اس کے بعد ضروری ہے کہ روزانہ کم از کم آدھا گھنٹہ ورزش کی جائے۔ تندرست، چاک و چوبند اور توانا رہنے کے لیے ورزش سے بہتر کوئی نسخہ نہیں۔ لیکن یاد رہے کہ ورزش کرنے والے جسم کو متوازن خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورزش، معدے، دوران خون، دل، دماغ وغیرہ کے حوالے سے پیدا ہونے والے مسائل کو دورکرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

یہ رگوں میں خون کو منجمد ہونے سے بچاتی ہے اور دل کی دھڑکن کو کنٹرول کرتی ہے۔ تازہ ہوا میں چہل قدمی یا ورزش سے پھیپھڑوں کو تازہ ہوا میسر آتی ہے۔ اس سے ذہن بھی تازگی محسوس کرتا ہے۔ جسمانی تھکاوٹ دور ہوتی ہے اور ذہنی سکون بھی حاصل ہوتا ہے۔ تھوڑی سی دیر ہلکی دھوپ میں بھی جانا چاہیے۔ اس سے وٹامن ڈی کی کمی سے بچا جا سکتا ہے۔ وٹامن ڈی ہڈیوں کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں کے سرطان سے بچانے کے لیے بھی ضروری ہے۔

محمد اقبال

صحت بخش غذا کیسی ہوتی ہے

پاکستان جیسے جنوبی ایشیا کے ملک میں اسی کھانے کو اچھا سمجھا جاتا ہے جو مزیدار ہو اور جسے کھانے کو بہت جی چاہے۔ ایسے ’’اچھے‘‘ کھانوں کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں، خواتین کو مزیدار کھانے پکانے کی ترغیب دی جاتی ہے اور یہاں تک سمجھایا جاتا ہے کہ گھر والوں اور شوہر پر حکمرانی انہی مزیدار کھانوں سے ممکن ہے۔ عام طور پر ہمیں ایسے جملے سننے کو ملتے ہیں کہ فلاں خاتون بہت اچھا کھانا پکاتی ہیں۔ مطلب یہ کہ ان کے پکائے ہوئے کھانے کا ذائقہ بہت عمدہ ہوتا ہے۔ کھانے پینے کے بعض مقامات کی پہچان وہاں کے کھانے بن جاتے ہیں۔

وہ اپنے پکوانوں کے ذائقے کے باعث اتنے مشہور ہو جاتے ہیں کہ لوگ دور دور سے کھانے کے لیے آتے ہیں اور دوست احباب کے لیے بطور تحفہ لے کر جاتے ہیں۔ لیکن ایک امر عموماً نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ ایسے کھانے مسلسل کھانے سے ہمارے جسم پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خوراک کا مقصد جسم کو صحت مند رکھنا اور اسے توانائی فراہم کرنا ہے۔ بنیادی طور پر کھانے کا مقصد چٹخارہ لینا نہیں۔ ہم اسے اس لیے کھاتے ہیں تاکہ محنت مشقت سے خرچ ہونے والی توانائی بحال کر سکیں اور جسم کے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کے بعد اس کی مرمت کا عمل جاری رہ سکے۔ اسی طرح ہی جسم کو قائم دائم رکھا جا سکتا ہے۔ حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔ مزیدار کھانوں اور کھانے میں بے احتیاطی نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا ہے۔ بہت سی ایسی بیماریاں عام ہو چکی ہیں جن کا تعلق ہماری خوراک کے عدم توازن سے ہے۔

مثال کے طور پر دل اور پیٹ کے امراض، موٹاپا اور ذیابیطس۔ اس کے علاقہ تعلیم اور آگاہی کے فروغ سے لوگوں کی سمجھ میں متوازن خوراک کی اہمیت آ رہی ہے۔ اب صرف مزیدار کھانے پر سارا زور نہیں دیا جاتا بلکہ اکثر اوقات دیکھا جاتا ہے کہ اس سے فائدہ اور نقصان کیا ہو گا۔ اب اچھا کھانا اسے سمجھا جاتا ہے جو متوازن ہو اور جسمانی ضروریات سے مطابقت رکھتا ہو۔ لوگ محسوس کرنے لگے ہیں کہ خوراک کی سب سے اہم خوبی اس کا صحت بخش ہونا ہے۔ لیکن ظاہر ہے بدمزہ کھانا کھایا بھی نہیں جاتا اس لیے کوشش ہونی چاہیے کہ کھانا خوش ذائقہ بھی ہو اور صحت مند بھی۔ ماہرین غذائیات کے مطابق صحت مند زندگی گزارنے کے لیے صر ف صحت مند غذا کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ انسان کو دیگر لوازمات بھی پورے کرنے چاہئیں۔

ان میں غیر ضروری پریشانیوں سے نجات، اچھی نیند، ورزش، اچھی اور صاف آب و ہوا شامل ہے۔ اگر آپ کی غذا میں مناسب مقدار میں نشاستہ، لحمیات، نمکیات اور حیاتین کے ساتھ وافر مقدار میں پانی اور ریشہ دار خوراک شامل ہوں تو ایسی خوراک کو متوازن غذا کہا جائے گا۔ ایسی غذا سے نہ صرف آپ صحت مند اور توانا رہتے ہیں بلکہ یہ آپ کو بیماریوں اور غیر ضروری تھکن اور موٹاپے سے بچاتی ہے۔ گندم، چاول اور آلو وغیرہ کا بڑا حصہ نشاستے پر مشتمل ہے۔ گوشت، مچھلی، انڈے اور دودھ وغیرہ سے ہم لحمیات حاصل کرتے ہیں۔ نمک، پھلی دار سبزیاں، خشک پھل، دودھ، دہی، پنیر، اور گوشت کے اندر نمکیات کا ذخیرہ ہوتا ہے۔

سبزیوں اور پھلوں میں حیاتین اور ریشہ بڑی مقدار میں ملتا ہے۔ گھی، کھانے کا تیل، خشک پھل، انڈے اور دودھ میں چکنائی موجود ہوتی ہے۔ عمر اور کام کے لحاظ سے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ کھلاڑیوں، بچوں اور جسمانی محنت کرنے والوں کو کافی مقدار میں لحمیات اور نشاستے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دفتروں میں بیٹھ کر کام کرنے والے میٹھی اور چکنائی والی چیزیں اورنشاستہ دار خوراک کم مقدار میں لیں اور جسمانی ورزش کو معمول بنا لیں۔ آج کل گوشت میں پکے کھانے زیادہ پسند کیے جاتے ہیں لیکن گوشت کا استعمال محدود ہونا چاہیے۔ اس کی بجائے پھل اور سبزیاں زیادہ کھانی چاہئیں۔ نیز دودھ پیتے رہنا چاہیے۔

وردہ بلوچ