کامیاب زندگی گزارنے کا راز

ہر کوئی چاہتا ہے کہ اپنی زندگی کو کامیاب بنائے اور اپنے لائف اسٹائل کو تبدیل کرے۔ ہرچھوٹے بڑے کی زندگی میں خواہش ہوتی کہ وہ کچھ کر جائے کیونکہ آگے آنے والی زندگی بہت تیز ہے اگر ہم ابھی سے محنت نہیں کریں گے تو ہم اپنی زندگی میں کچھ بھی نہیں کر سکیں گے اسی لیے ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی اپنی فیملی کے ساتھ اچھے سے گزارے اور خوش رہے۔ اگر آپ بھی زندگی میں کچھ بڑا یا کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں جو آپ کی آنے والی زندگی کے لئے فائدہ مند ہو تو میں آپ کو چند ایسے راز بتاؤں گا جس سے آپ اپنی زندگی میں کچھ بڑا کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔

زندگی کا مقصد
اگر آپ کی زندگی میں کوئی مقصد نہیں ہے تو آپ اپنی زندگی کو نقصان پہنچا رہے ہیں کیونکہ اگر آپ کی زندگی میں مقصد نہ ہو تو آپ اپنی زندگی میں کچھ بھی نہیں کر سکتے، زندگی میں کچھ بھی کرنے کے لیے مقصد کا ہونا لازمی ہے۔ اگر زندگی میں کسی بھی چیز کو حاصل کرنے کا مقصد نہیں ہے تو اپنی زندگی اندھیرے میں گزارنے کے برابر ہے۔ کسی بھی قسم کی کامیابی کو حاصل کرنے کے لئے سب سے پہلے مقصد ہوتا ہے اگر آپ مقصد پر چلتے رہے تو ایک دن کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ بل گیٹس کے پاس بھی ایک مقصد تھا کہ وہ کمپیوٹر کی دنیا میں ایک ایسا آپریٹنگ سوفٹ وئیر بنائے گا جو پوری دنیا میں استعمال کیا جا سکے تو اس نے پوری دنیا کے لئے سافٹ وئیر بنا ڈالا جیف بیزوز جو کہ ایمیزون کے اونر ہیں ان کے پاس بھی ایک مقصد تھا کہ ایمیز ون کو دنیا کی نمبرون آن لائن شاپنگ ویب سائٹ بنائے اور اس نے ایسا کر کے دکھایا اسی لیے دوستوں ہر چیز کو حاصل کرنے کے لیے مقصد ہوتا ہے۔

زندگی میں کبھی چھوٹا مت سوچیں
کامیاب لوگوں کا سب سے بڑا راز ان کی سوچ ہوتی ہے۔ اگر ایک انسان کسی بھی مقام پر ہو تو اس کی سب سے بڑی وجہ اس کی سوچ ہوتی ہے جیسی اس کی سوچ ہوگی ویسا ہی وہ بنے گا ایک مشہور بزنس مین نے اپنی کامیابی کے متعلق بتاتے ہوکہا کہ اگر نشانہ لگانا ہے تو چاند پر لگاؤ اگر چاند پر نہیں لگتا تو ستارے تو ہاتھ میں آئیں گے زندگی میں اگر کوئی بڑا بننا چاہتا ہے ضروری ہے کہ وہ اپنی سب سے پہلے سوچ کو تبدیل کرے چھوٹی چھوٹی باتوں پر غور نہ کریں، اس سے یہ ہوتا ہے آپ اپنی لائف میں خود پریشان رہیں گے ہمیشہ آگے بڑھیں اور محنت کریں ارادے پر قائم رہیں ہو سکے تو شروعات چھوٹے کام سے کریں لیکن سوچ بڑی رکھیں۔

اچھی صحبت میں بیٹھنا
کامیاب لوگوں کے طرزِ زندگی کا بڑا راز یہ بھی ہے کہ وہ لوگ زیادہ تر اچھے لوگوں میں اپنا وقت گزارتے ہیں جن سے ان کو کسی چیز کا فائدہ ہو اور اگر آپ اچھے لوگوں میں زیادہ وقت گزاریں گے تو ان سے بہت ساری ایسی چیزیں سیکھیں گے جو آپ کی زندگی کو تبدیل کریں گی اور اگر آپ بری صحبت میں بیٹھیں گے تو برے لوگوں کی صحبت اختیار کرنی پڑے گی جس سے آپ کی زندگی میں بہت مسائل پیش آئیں گے ،جو لوگ کہتے ہیں کہ کامیاب زندگی قسمت والے لوگوں کو ملتی ہے جو لوگ سوچتے ہیں کہ کامیاب ہونا بہت مشکل کام ہے اگر آپ ایسے لوگوں کے ساتھ رہیں گے تو آپ کے ذہن میں بھی یہی گھومے گا اور آپ ناکام رہیں گے کامیاب ہونے کے لئے آپ کو کامیاب لوگوں کے بارے میں پڑھنا ہو گا مشکل وقت میں انہوں نے کیسے اپنے آپ کو سنبھالا لیکن ہمت نہیں ہاری اور آپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دن رات محنت کرتے رہیں۔ آپ کامیاب لوگوں کی تاریخ پڑھ کر اپنی زندگی کو تبدیل کر سکتے ہیں۔

کبھی ہمت نہ ہاریں
مشکل سے مشکل حالات میں بھی قائم رہیں کیونکہ کامیاب لوگ کبھی بھاگتے نہیں مشکل حالات تو سب کی زندگی میں آتے ہیں، جو لوگ اس مشکل کو برداشت نہیں کر پاتے وہ لوگ ہمیشہ پیچھے رہتے ہیں کامیاب لوگوں کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں، جتنا بڑا آپ کا مقصد ہو گا اتنی بڑی آپ کی پریشانی ہو گی زیادہ تر لوگ مشکل حالات کو برداشت نہیں کر پاتے اور ہار مان جاتے ہیں کسی نے خوب ہی کہا ہے کہ کبھی ٹوٹتے ہیں کبھی بکھرتے ہیں، امتحانوں میں انسان اور بھی نکھرتے ہیں۔

لوگوں کی مدد کرنا
اگر آپ لوگوں کی مدد کرتے ہیں چاہے پیسے سے ہو یا کسی اور چیز سے، تو اس اللہ تعالیٰ اس کا اجر آپ کو دیتا ہے، جب آپ لوگوں کی مدد کرتے ہیں ان کے لیے سہولیات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو لوگ بھی آپ کے لیے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق سہولیات مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح یہ عمل ایک ری ایکشن کی طرح چل پڑتا ہے اور ایک کامیاب فرد ہی ایک کامیاب معاشرے کا ضامن ہوتا ہے۔

اشفاق رحمٰن

بشکریہ دنیا نیوز

طویل اور صحتمند زندگی کا راز

جاپانی قوم دنیا میں سب زیادہ طویل العمر قوم شمار کی جاتی ہے۔ جاپان ٹیکنالوجی کی دوڑ میں بھی آگے رہتا ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ یہ کھیلوں کے عالمی مقابلوں میں بھی سرفہرست رہتا ہے۔ حالیہ ٹوکیو اولمپکس میں یہ تیسرے نمبر پر آیا ہے۔ جاپان میں خواتین کی اوسط عمر 87 برس جبکہ مردوں کی عمر 82 برس ہے۔ گزشتہ برس جاپان میں 90 سال کی عمر کو پہنچنے والے افراد کی تعداد 23 لاکھ سے زیادہ تھی۔ صحت‘ کامیابیوں اور طویل العمری کے کئی راز ہیں مثلاً جاپانی لوگ خوراک کے معاملے میں بہت محتاط ہیں۔ وہ زبان کے ذائقے کے بجائے کھانے میں شامل اجزا کے فوائد کو اہمیت دیتے ہیں۔ خوراک کو متوازن رکھتے ہیں۔ مچھلی‘ اُبلے چاول‘ سبزیوں اور سی فوڈ کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ وٹامنز اور منرلز سے بھرپور ایسی خوراک کو اپنے کھانوں کا باقاعدہ حصہ بناتے ہیں جو کینسر اور دل کے عارضوں سے محفوظ رکھتی ہوں۔ اچھی خوراک کی وجہ سے جاپانیوں میں موٹاپا نہ ہونے کے برابر ہے۔ جاپان کی صرف 4 فیصد آبادی موٹاپے کا شکار ہے جبکہ اس کے مقابلے میں 28 فیصد برطانوی اور 36 فیصد امریکی شہری موٹاپے کے مرض میں مبتلا ہیں۔ 

موٹاپا کئی عوارض لے کر آتا ہے جن میں بلڈ پریشر‘ ذیابیطس اور دل کی بیماریاں شامل ہیں۔ جاپان میں غذائی پروگرام سکولوں کی سطح پر ہی شروع ہو جاتے ہیں۔ سکولوں کو گائیڈ لائنز دی جاتی ہیں اور بچوں کو آغاز سے ہی صحت بخش خوراک کھانے کی عادت ڈالی جاتی ہے جو ساری عمر ان کا ساتھ دیتی ہے۔ سکولوں میں بچوں کو وافر پھل اور سبزیاں کھلائی جاتی ہیں تاکہ ان کا معدہ بوجھل نہ ہو اور وہ کام کے وقت سستی اور کاہلی کا شکار نہ ہوں۔ دوسری احتیاط جو جاپانی کرتے ہیں‘ وہ کھانا دھیان سے کھانا ہے۔ بجائے اس کے کہ کھانا کھاتے وقت کوئی فلم لگا لی جائے یا ٹی وی یا موبائل فون پر وڈیوز دیکھی جائیں‘ جاپانی کھانا انتہائی توجہ اور انہماک سے کھاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں اگر آپ خوراک کو توجہ سے کھائیں گے تو وہ آپ کے جسم کا حصہ بنے گی اورآپ ضرورت کے مطابق کھائیں گے لیکن اگر آپ ٹی وی دیکھتے ہوئے یا گپیں مارتے ہوئے کھاتے جائیں گے تو ضرورت سے بہت زیادہ کھا لیں گے جس سے موٹاپا اور دیگر بیماریاں آپ کو آسانی سے دبوچ لیں گی۔ 

جاپان میں یہ گائیڈ لائنز بہت عام ہے کہ آپ کھانا کھاتے ہوئے اس وقت ہاتھ روک دیں جب آپ کا پیٹ 80 فیصد بھر چکا ہو۔ ویسے یہی باتیں ہمارا دین بھی ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم بھوک رکھ کر کھائیں لیکن ہم کم ہی عمل کرتے ہیں۔ پھر جاپانی لوگ تھوڑا اور آہستہ رفتار سے کھانا پسند کرتے ہیں اس سے کھانا جلدی ہضم ہو جاتا ہے۔ وہ کھانے کو چھوٹے حصوں میں بانٹ لیتے ہیں۔ ہر پلیٹ کے صرف چوتھائی حصے کو بھرتے ہیں اس طرح وہ ضرورت سے زیادہ نہیں کھاتے۔ جاپانی صدیوں سے سبز چائے کے دلدادہ ہیں جو ہاضمے کے لیے ٹانک کا کام کرتی ہے اور جسم کو تازہ دم اور دماغ کو متحرک رکھتی ہے۔ سبز چائے بھی جوان اور دیر تک زندہ رکھنے میں مدد کرتی ہے۔ سبز چائے بالعموم دن میں کئی مرتبہ پی جاتی ہے اور کولڈ ڈرنکس کی جگہ پارٹیوں میں یہی پسند کی جاتی ہے۔ تیسرا اہم فیکٹر جو جاپانیوں کی صحت اور لمبی عمر کیلئے معروف ہے وہ متحرک یعنی ایکٹو لائف سٹائل ہے۔ 

98 فیصد کے قریب جاپانی پیدل یا سائیکل پر سکول جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ سائیکل پر ٹرین یا بس سٹیشن تک جاتے ہیں اور وہاں سے ٹرین یا بس پکڑتے ہیں۔ واپسی پر پھر سائیکل لے کر گھر آتے ہیں۔ جاپانی زمین پر بیٹھ کر کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح ان کی ٹانگوں کے مسلز (پٹھے) لچکدار اور مضبوط رہتے ہیں۔ جاپان میں دنیا کا بہترین ہیلتھ کیئر سسٹم موجود ہے۔ اوسطاً ایک جاپانی شہری ایک سال میں تیرہ مرتبہ ڈاکٹر کے پاس چیک اَپ کیلئے جاتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ سال میں تیرہ مرتبہ بیمار ہوتا ہے بلکہ اس لیے کہ اگر کوئی بیماری شروع ہو رہی ہے تو اسے آغاز میں ہی پکڑ لیا جائے۔ جاپان کے بیشتر گھروں میں کچن گارڈننگ کی سہولت موجود ہے۔ اگر گھر چھوٹا ہے تو بھی کچن کی کھڑکی میں بیل دار سبزیاں ضرور دکھائی دیں گی۔ اس کے علاوہ گھروں میں مچھلیاں تک پالی جاتی ہیں۔ تالاب کی جگہ نہیں ہے تو بھی یہ لوگ کشتی کے نچلے حصے کو تالاب کی جگہ دے کر مچھلیاں پال لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ روزانہ کی بنیاد پر سو گرام تک مچھلی کھاتے ہیں۔ 

ماہرین کے مطابق جاپان میں دل کے امراض کے کم ہونے کے پیچھے بڑی وجہ مچھلی کا استعمال ہے۔ جاپانی لوگوں کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ چلتے نہیں بلکہ بھاگتے ہیں۔ سائیکل ان کی من پسند سواری ہے ہر دوسرا بندہ سائیکلنگ کرتا نظر آتا ہے۔ فٹ پاتھ ان کے ٹریک ہیں‘ جہاں یہ جب چاہیں بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ ان کی فٹنس کا راز ان کی بھاگ دوڑ اور متحرک زندگی میں چھپا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک جاپانی دن میں اوسطاً چھ ہزار قدم چلتا ہے۔ ہر جاپانی ہفتے میں تین دن آدھے گھنٹے کی واک ضرور کرتا ہے۔ جاپانی صفائی کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ وہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے اپنے جوتے اتار دیتے ہیں۔ اس طرح وہ باہر کی گندگی کو گھر میں داخل نہیں ہونے دیتے اور جراثیموں اور صفائی پر بہت زیادہ وقت اور انرجی خرچ کرنے سے محفوظ رہتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی صفائی ستھرائی کا اعلیٰ معیار برقرار رکھا جاتا ہے مثال کے طور پر نشستوں کی صفائی کیلئے ایک خاص برش میں نمی کا سینسر موجود ہوتا ہے کہ اگر نشست گیلی ہو تو الارم بج اٹھے گا۔ 

جاپانی افراد نجی اداروں میں نوکریوں کیلئے ریٹائرمنٹ سے دو تین برس قبل ہی اپلائی کرنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ جیسے ہی وہ ریٹائر ہوں انہیں دوسری نوکری ڈھونڈنے میں وقت نہ ضائع کرنا پڑے۔ یہ جس دن ریٹائر ہوتے ہیں اس سے اگلے دن دوسری نوکری پر پہنچ جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں اگر وہ ایک دن بھی گھر بیٹھ گئے تو وہ ڈپریشن سمیت کئی عوارض کا شکار ہو جائیں گے کیونکہ ان کے سامنے تیس چالیس برس کی پہاڑ سی زندگی پڑی ہوتی ہے جو گھر میں رہ کر گزارنا ممکن نہیں۔ وہ خود کو متحرک رکھ کر ہی بقایا زندگی صحت مند انداز میں گزار پاتے ہیں۔ یہ طرزِ زندگی بوڑھے لوگوں کو بیماریوں سے بچانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح جاپان میں ریڈیو پر نشر ہونے والی مشقیں وسیع پیمانے پر ہوتی ہیں۔ جمناسٹکس وہاں عام ہے۔ ریڈیو مشقوں کی ایک لمبی تاریخ ہے اور بیشتر جاپانی بچے سکول میں ہر روز یہ مشقیں کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ چونکہ مقامی سطح پر اکثر کھیلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے اس لئے دماغی اور جسمانی صلاحیتوں میں نکھار برقرار رہتا ہے۔

جاپانیوں کی طویل العمری جاننے کیلئے بہت سی دنیا کوشش میں رہتی ہے۔ ایک جاپانی محقق نے بیس سالہ تحقیق کے بعد آخرکار جاپانیوں کی طویل عمر کا راز معلوم کر لیا۔ محقق کا کہنا تھا کہ جاپانی عموماً گرم پانی سے لمبا غسل کرتے ہیں۔ ٹوکیو سٹی یونیورسٹی کے پروفیسر اور میڈیکل ڈاکٹر شینیا ہایا ساکا نے دو دہائیوں تک لمبے غسل اور چشموں سے نکلنے والے گرم پانی میں دیر تک نہانے کے طبی فوائد کا مطالعہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ جاپان میں لوگوں کی لمبی اور صحت مند زندگی کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہے کہ 80 فیصد جاپانی دیر تک گرم پانی میں لیٹے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بیس برس قبل ایک نرس نے ان سے بلڈ پریشر کے مریضوں کو گرم پانی سے غسل دینے سے متعلق استفسار کیا تھا، لیکن اس سلسلے میں کوئی سائنسی تحقیق موجود نہیں تھی، چنانچہ انہوں نے اس سلسلے میں باقاعدہ تحقیق کا آغاز کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ گرم پانی سے زیادہ دیر تک غسل کے تین بنیادی فائدے ہیں؛ حدت‘ پانی پر جسم کے تیرنے کی صلاحیت میں اضافہ اور ہائیڈرو اسٹیٹک پریشر۔ 

ان کے مطابق حفظانِ صحت اور صفائی والے فائدے شاور کے نیچے کھڑے ہو کر غسل لینے سے حاصل تو کیے جا سکتے ہیں؛ تاہم طویل العمری کے فائدے صرف گرم پانی میں لیٹنے سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔ جاپان میں گرم پانی کے ستائیس ہزار چشمے ہیں۔ پاکستان میں بھی جو لوگ نوے یا سو برس کی زندگی تک پہنچے ہیں انہوں نے بھی تقریباً انہی اصولوں کو اختیار کیا جن پر جاپانی عمل کرتے ہیں؛ چنانچہ سادہ خوراک‘ اچھی نیند‘ باقاعدہ ورزش‘ بازاری کھانوں سے دوری‘ کتب بینی‘ لالچ سے پرہیز اور قدرت سے قربت اختیار کی جائے تو ہر انسان طویل اور صحت مند زندگی گزار سکتا ہے۔

عمار چودھری

بشکریہ دنیا نیوز

What we’re eating is killing us

Poor diets are among the top causes of ill health globally, accounting for nearly one in five deaths, according to a study published on Thursday that called on governments and businesses to do more to improve eating habits. Eating unhealthy food, or not having enough food – including children unable to breastfeed – contribute to widespread malnutrition, said researchers behind the latest Global Nutrition Report. The report is an independently produced annual analysis of the state of the world’s nutrition. “Diets are one of the top risk factors of morbidity and mortality in the world – more than air pollution, more than smoking,” said Jessica Fanzo, a professor at Johns Hopkins University and a lead author. “What we’re eating is killing us. So something needs to get us back on track with our food system,” she said on the sidelines of a global food conference in Thailand’s capital, Bangkok.
She said a lack of knowledge and affordability of nutritious food, as well as ineffective supply chains, are among the factors that contribute to poor diets. The researchers analysed 194 countries and found that malnutrition could cost the world $3.5 trillion per year, while overweight and obesity could cost US$500 billion annually. Every country is battling some form of malnutrition – be it children who are anemic or too short for their age, or women who are overweight but undernourished due to unhealthy diets – and adolescence obesity rates are rising, the report said. Most countries are unlikely to meet nine global targets on nutrition that they have signed up to achieve by 2025 including adult obesity and diabetes, anemia and child health. Progress has been “unacceptably slow”, the authors warned.
However, there is now better and more detailed data, which has created an unprecedented opportunity to craft effective responses, according to the report. It cited Amsterdam, which faced a weight crisis among young people and set up programmes in 2012 to prevent and treat obesity, as well as facilitate learning and research on the issue. Initiatives included public drinking fountains, restrictions on food advertising and guidance for healthy snacks in schools. Today, the prevalence of overweight and obesity in Amsterdam is leveling off, the report said.
Reducing food waste could also improve nutrition, said Sir John Beddington, co-chair of the Global Panel on Agriculture and Food Systems for Nutrition, an independent group of experts. “Each year more than half of all the fruits and vegetables produced globally are lost or wasted,” he told the Thomson Reuters Foundation by email. Fanzo noted that nutrition is crucial to building up immunity against disease, as well as mental cognition. “You have to care about what people are eating if you want to build the intellect of your country,” she said.

تیس سال کی عمر کے بعد صحت مند رہنے کے اصول

ہر عمر میں اپنی صحت کا خیال رکھنا انتہائی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ بچہ جس دن ماں کے پیٹ میں کنسیو ہوتا ہے، اس دن سے لے کر آئندہ کے ہزار دن اس بچے کی پوری زندگی کو بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پہلے ہزار دن ایک فرد کی صحت کے لیے سب سے اہم ہوتے ہیں۔ اس دوران اسے بہترین غذا اور صحت کی سہولتیں فراہم کی جانی چاہئیں۔ اس کے بعد اس کی زندگی میں اگلا اہم پڑاؤ 30 سال کی عمر میں پڑتا ہے۔ 30 سال کو ہمارے خطے میں زندگی کا وسط بھی کہا جاتا ہے۔ اس عمرکے بعد انسانی اعضاء کی کارکردگی میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے۔

جوانی میں طاقت اور خوبصورتی عروج پر ہوتی ہے، لہٰذا لوگوں کو اپنی صحت بحال رکھنے میں اتنی محنت نہیں کرنا پڑتی، تاہم 30 سال کی عمر کے بعد، جسمانی خدوخال پر دباؤ محسوس ہونے لگتا ہے۔ 30 سال کی عمر کے بعد مرد و خواتین، دونوں کے ہارمونز میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ انسانی میٹابولزم بھی اس عمر کے بعد سست پڑنے لگتا ہے اور مرد و خواتین کے وزن میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ وہ عمر ہوتی ہے، جہاں آپ کو مختلف بیماریوں سے لڑنے کے لیے پہلے سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ ذیابطیس، ہائی بلڈ پریشر اور دل کے امراض زیادہ آسانی سے حملہ آور ہوتے ہیں۔

اس عمر میں سر اور چہرے کی جِلد پر بھی واضح تبدیلیاں محسوس کی جا سکتی ہیں، جیسے بالوں کا تیزی سے گِرنا، گنج پن، چہرے پر جھُریاں نمودار ہونا وغیرہ۔ ہڈیوں کے بھربھرے پن کا مسئلہ بھی 30 سال کی عمر کے بعد سامنے آسکتا ہے، جس میں اگر احتیاط نہ کی جائے تو 45 سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے یہ مرض پختہ ہو جاتا ہے۔ 30 سال کی عمر کے بعد کے اِن عمومی مسائل کا ذکر کرنے کے بعد ہم آپ کی خدمت میں کچھ ایسے سماجی رویے اور عادات پیش کرنے والے ہیں، جنھیں اپنا کر زندگی کو خوشگوار اور طویل بنایا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق غذا اور ورزش سے ہٹ کر بھی بہت سے ایسے امورہیں، جو زندگی کو صحت بھرا رنگ دے کر طویل زندگی کی ضمانت بن سکتے ہیں۔

ازدواجی زندگی
ماہرین نفسیات کے مطابق رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور طویل عمرکی وجہ بنتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شریک حیات کی مدد سے زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی قوت پیدا ہوتی ہے اور پھر اولاد کی وجہ سے عملی جدوجہد کا ایک جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ امریکی ریاست نارتھ کیرولینا میں ڈیوک یونیورسٹی نے 4,802 افراد کے مطالعے کے بعد انکشاف کیا ہے کہ شادی شدہ افراد میں وقت سے پہلے اموات کی شرح بہت کم ہوتی ہے اور ان میں دل کے دورے اور اسٹروک کے امکانات بھی 20 فیصد تک کم ہو جاتے ہیں۔

ذہنی دباؤ کو دور بھگائیں
سن 2015ء میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان فرانسسکو کے ایک مطالعے سے معلوم ہوا کہ جو خواتین بات بات پر اداسی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوتی ہیں، ان میں کلوتھو ہارمون کی سطح کم ہو جاتی ہے۔ اس ہارمون کی کمی دل اور دماغ پر خراب اثرات مرتب کرتی ہے اور بیماریوں کاعمل تیز ہو جاتا ہے۔ ایسے افراد میں دل کے دورے کا خطرہ 20 فیصد بڑھ جاتا ہے، اس لئے ذہنی تناؤ سے دور رہیں۔

سماجی تعلقات بڑھائیں
برمنگھم یونیورسٹی کے سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دوستوں سے بات کرنے اور محفل میں بیٹھنے سے جسم پر ویسے ہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو درد دور کرنے والی دواؤں سے ہوتے ہیں۔ الگ تھلگ رہنے والے افراد کو بیماریوں کا اتنا ہی خطرہ رہتا ہے، جتنا بہت موٹے افراد کو ہوتا ہے۔

سفید نہیں براؤن
سفید روٹی کے بجائے براؤن روٹی اور سفید چاول کے بجائے براؤن چاول کو اپنی غذا کا حصہ بنائیں۔ یہ قبل ازوقت موت کے خطرات کو 30 فیصد تک کم کرتے ہیں۔ غذا میں ان اشیا کا استعمال امراض قلب، ذیابطیس اور سانس کی بیماریوں سے دور رکھتا ہے۔

جسمانی مشقت
امریکی کالج آف کارڈیالوجی کے مطابق، ہفتے میں 60 سے 144 منٹ تک دوڑنے سے دل اور صحت پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جرنل آف امریکن کالج آف کارڈیالوجی کے مطابق، 12 سال تک 10 ہزار سے زائد افراد کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ جولوگ جتنی دیرتک دوڑے، انہیں اتنا ہی فائدہ ہوا۔ دوڑنے سے بلڈ پریشر قابو میں رہتا ہے اور دل پر اس کے بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

زندگی کو بامقصد بنائیے
ذراسوچئے کہ آپ کی زندگی کا کیا مقصد ہے؟ اگر نہیں ہے تو اس مقصد کو تلاش کیجئے۔ بامقصد زندگی آپ کو جینے کاحوصلہ دیتی ہے۔

موٹاپے کوقریب نہ آنے دیں
موٹاپا کئی بیماریوں کی وجہ بنتا ہے۔ جن افراد کا باڈی ماس انڈیکس 35 یا اس سے زیادہ ہو، ان میں دیگر کے مقابلے میں، قبل از وقت موت کا خدشہ 29 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ موٹاپا، بلڈ پریشر، امراض قلب اور ٹائپ 2 ذیابطیس کی وجہ بنتا ہے۔

نیند کی اہمیت کو پہچانیں
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا،سان تیاگو اور امریکن کینسر سوسائٹی کے مطابق بہتر نیند، طویل عمری کی ضمانت ہے۔ نیند کی کمی جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی تباہی کی وجہ بنتی ہے۔ سات گھنٹے کی اوسط نیند نہایت ضروری ہے۔ اسی طرح آٹھ گھنٹے سے زائد نیند بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک ہفتے کی کم نیند بھی انسانی زندگی، جسم اور دماغ کو شدید متاثر کر سکتی ہے۔

غذامیں مچھلی کااستعمال
مچھلی میں دیگر اہم اجزاء کے ساتھ ساتھ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز بھی موجود ہوتے ہیں اور یہ زندگی کو طویل رکھتے ہیں۔ ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کے استعمال سے قبل از وقت اموات میں 27 فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ مچھلی کھانے سے پورے جسم پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

زندگی کے 7 اصول

زندگی ایک بار ملتی ہے، اس لیے اس کے اصول ترتیب دے لینے چاہئیں۔ جو لوگ بے ڈھنگی اور بے اصول زندگی گزارتے ہیں ان کی کامیابی کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ آئیے چند اہم اصولوں پر نظر ڈالتے ہیں۔

 ۔ مستقل مزاجی

 زندگی کا جو بھی مقصد ہو اسے حاصل کرنے کے لیے خوب محنت کرنی چاہیے۔ مقصد کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں آ سکتی ہیں۔ راستہ کٹھن اور پُر پیچ ہو سکتا ہے، لیکن ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور کوئی جواز تلاش کر کے محنت کرنا چھوڑ نہیں دینا چاہیے۔ اس یقین کے ساتھ محنت کرنی چاہیے کہ کبھی ایسا وقت ضرور آئے گا جب ’’بریک تھرو‘‘ ہو گا۔

 ۔ جسم اور ذہن کو آرام

 ہر وقت کام کرنا، نیند پوری نہ کرنا اور کام کی تشویش میں مبتلا رہنا درست نہیں۔ اپنی جسمانی اور ذہنی توانائی کو برقرار رکھنے کے لیے آرام کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ یہ کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

 ۔ مثبت سوچ

انسان کا طرز فکر اس کی خوشی اور کامیابی میں اہم ہوتا ہے۔ اسے ہمیشہ مثبت رکھیں۔ اگر کام کرتے تھکاوٹ محسوس ہو رہی ہے تو خود پر تھوڑا کنٹرول کریں، کوئی ایسی چھوٹی سی سرگرمی کریں جس سے چستی ہو اور پھر اپنا کام تندہی سے کرنا شروع کریں۔ اگر حوصلہ پست ہو گیا ہے تو مسکرائیں، اپنی باڈی لینگوئج بہتر بنائیں، کچھ ایسے کہ آپ کے اردگرد موجود لوگ آپ کے بارے میں اچھا محسوس کریں، اپنے آپ کو حوصلہ دیں اور پھر کام میں جت جائیں۔

 ۔ مشکل کو موقع میں بدلیں

 مشکلات زندگی کا حصہ ہیں۔ مثلاً کبھی کبھی کام کا بوجھ بہت بڑھ جاتا ہے۔ لیکن یہی وہ موقع ہوتا ہے جب آپ سیکھتے بھی ہیں کیونکہ کہ آپ کو کم وقت میں زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ اس سے کام کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ آپ کو کوئی ایسا کام دیا جا سکتا ہے جو آپ کو مشکل محسوس ہو، لیکن اسے کرنے ہی سے آپ کی اہمیت بڑھے گی۔

 ۔ شکرگزاری

ہمیں زندگی ویسی نہیں ملتی جیسی ہم جینا چاہتے ہیں۔ اسے اپنی کوشش سے ہم بدل تو سکتے ہیں لیکن ہر شے نہیں بدلی جا سکتی۔ اس لیے جو ہمارے پاس موجود ہے اس پر ہمیں شکر گزار بھی ہونا چاہیے۔ دوسروں کے زیادہ وسائل پر نظر رکھنے سے ہم اپنا سکون برباد کر سکتے ہیں۔

 ۔ اپنا فیصلہ

 مشورے دینے والے بہت مل جاتے ہیں۔ انہیں دھیان سے سننا چاہیے لیکن عمل کرتے وقت فیصلہ اپنی من مرضی سے کرنا چاہیے۔ دوسروں کے کہے میں آنے کی ضرورت نہیں۔ اپنی زندگی کے مالک خود بنیں۔

 ۔ پسندیدہ ملازمت

ملازمت یا کام وہ کریں جو آپ کو پسند ہو۔ اگر فی الوقت یہ ممکن نہ ہو تو آئندہ کے منصوبوں میں اپنی پسند کے کام کو شامل کر لیں۔ آخر کبھی تو موقع ملے گا۔

ترجمہ: رضوان عطا

عمر اور احتیاط

مردوں کو عمر کے لحاظ سے مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیے۔

عمر 25 تا 40 برس

ورزش کے لیے باقاعدہ منصوبہ کریں۔ باقاعدگی کے ساتھ تیراکی کریں یا سائیکل سواری کو اپنے معمولات میں شامل کریں یا ہفتے میں کم از کم تین مرتبہ کوئی فعال گیم کھیلیں۔ سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں۔ اپنی غذا میں وٹامن اے، سی اور ای کا خاص اہتمام کریں۔

عمر 41 تا 55 برس

اپنی جلد کی نگہداشت پر زیادہ وقت صرف کریں۔ باقاعدگی کے ساتھ ورزش کریں۔ کھیل مثلاً ٹینس کھیلیں، چہل قدمی کریں۔ ذہنی ورزش کریں۔ اپنے معدے کا خاص خیال رکھیں۔ اپنی خوراک کا بھی خاص خیال رکھیں۔ مالش یا مساج کا اہتمام کریں۔

عمر 56 تا 70 برس

ریٹائرمنٹ کے بعد کی نئی زندگی زیرغور رکھیں اور سماجی تعلقات کو خطرات سے دوچار کرنے سے پرہیز کریں بلکہ اپنی سماجی تعلقات کا دائرہ کار وسیع کریں اور کسی کورس میں داخلہ لیں اور مطالعہ بھی کریں۔ کسی قسم کی جزوقتی ملازمت اختیار کر لیں یا کوئی مشغلہ اپنا لیں۔ باقاعدگی کے ساتھ سیر کرنے کا پروگرام بنائیں۔ تیراکی کریں یا گھر میں ہی ورزش کیا کریں۔ اپنے معالج سے باقاعدگی کے ساتھ اپنا طبی معائنہ کرواتے رہیں۔ اپنے لیے صحت بخش غذا منتخب کریں۔

عمر71 تا 80 برس

آپ کا طرززندگی صحت مندانہ رہنا چاہیے۔ آپ کو کسی قدر ذہنی ورزشیں کرنی چاہئیں۔

عمر80 برس یا زائد

ایک صحت بخش طرز زندگی اب بھی انتہائی ضروری ہے۔ آپ کو باقاعدہ اور ہلکی پھلکی ورزش کی ضرورت ہو گی۔ اس میں ذہنی ورزشیں بھی شامل ہونی چاہئیں۔ حفظان صحت کے اصولوں کا خاص خیال رکھیں۔ اپنی خوراک کی جانب خصوصی توجہ دیں۔ آپ کی خوراک میں مچھلی یا مرغ کی پروٹین شامل ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ دالیں اور سبزیاں بھی شامل ہونی چاہئیں۔ سفر کریں بلکہ مہماتی سفر کو اپنا مشغلہ بنائیں۔ اپنے آپ سے لطف اندوز ہوں اور صحت کے کسی بھی مسئلے کو نظرانداز ہرگز نہ کریں بلکہ اس کا مناسب علاج کریں۔

ڈاکٹر مارس کیریاز

صحت اور یادداشت

جوانی میں اپنی صحت اور توانائی کا خیال نہ رکھنا قبل از وقت بڑھاپے کو دعوت دینا ہے۔ اگر تھوڑی احتیاط کر لی جائے توآسودہ حال زندگی گزارنے والے عمدہ صحت اور توانا زندگی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور طویل عمر پا سکتے ہیں۔ اس کے برعکس معاشی تفکرات اور پریشان کن صورت حال انسان کی زندگی کا لطف اور قابل رشک صحت چھین لیتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ذہنی تناؤ اور تشویش انسان کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اس کے اثرات ذہنی صحت پر بھی پڑتے ہیں جو اچھی زندگی کے لیے بہت ضروری ہے۔ جیسا کہ یہ یادداشت پر بہت برے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ پریشانی انسان کو اندر ہی اندر گھن کی طرح کھا جاتی ہے۔

پریشان اور تناؤ میں رہنے والے افراد کو باتیں بھولنے لگتی ہیں۔ کبھی یہ کیفیت عارضی بھی ہو سکتی ہے لیکن اگر یہ مسلسل رہے تو عین ممکن ہے کہ مستقل مسئلہ بن جائے۔ اس سے ڈیمنشیا یا الزائمر کی جانب پیش رفت ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اچھی صحت اور توانا ذہن کے لئے ضروری ہے کہ ہم پریشانی، تشویش اور ذہنی دباؤ کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں اور سمجھیں کہ جو ہو گیا سو ہو گیا۔ اسے اپنے سر پر سوار نہ کریں۔ زندگی میں پیش ہونے والے برے واقعات اور الجھے ہوئے خیالات کو روگ کی طرح دل سے نہ لگا لیں۔ اپنی خوراک کا خیال رکھیں۔ کیونکہ بعض غذائی اجزا کی کمی بھی ذہنی کمزوری کا باعث بنتی ہے جس سے ذہن پریشانیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہتا۔

پوٹاشیم، کیلشیم، آئرن، فاسفورس اور پروٹین سے بھرپور غذاؤں کو اپنی روزمرہ کی خوراک کا حصہ بنائیں۔ ناشتے میں انڈے اور دودھ کے ساتھ سبزی اور پھل کا استعمال مفید رہتا ہے۔ کیلا، گاجر، اسٹرابیری، اخروٹ، بادام، کشمش، مکھن اور دہی کی مناسبت مقدار بھی روزمرہ کی خوراک میں شامل کریں۔ قدرتی غذاپر زیادہ انحصار کریں اور ڈبہ بند چیزوں کو کم کھائیں۔ کاربونیٹڈ مشروبات، بیکری مصنوعات اور بادی غذاؤں سے مکمل پرہیز کریں۔ تیز قدموں کے ساتھ سیر اور ورزش کو اپنے معمول کا حصہ بنا لیں۔ یہ تمام چیزیں جسمانی و ذہنی صحت کی ضامن ہیں اور یادداشت کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

فائزہ خان